نقطہ نظر

جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہمارا سینما

پاکستانی فلمی صنعت میں وطن سے محبت کے جذبے میں سرشار فلموں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے فلم سازوں نے اس موضوع کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔

قیام پاکستان سے لے کر اب تک ایسی متعدد فلمیں تخلیق ہوچکی ہیں جو حب الوطنی کے جذبے کو سینما کے پردے پر اجاگر کرتی ہیں۔ پاکستانی فلمی صنعت میں وطن سے محبت کے جذبے میں سرشار فلموں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے فلم سازوں نے اس موضوع کو کبھی نظر انداز نہیں کیا بلکہ ہندوستانی پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ، ہالی وڈ اور دیگر فلمی صنعتوں میں بننے والی اور منفی نظریات کا پرچار کرنے والی غیر ملکی فلموں کا جواب اپنے ہاں فلمیں بناکر اپنے محدود وسائل کی بدولت کسی نہ کسی حد تک ضرور دیا۔

یہ الگ بات ہے کہ فلمی صنعت کی ترقی کے لیے حکومتوں اور مقتدر اداروں کو جس طرح کام کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کیا ماضی میں پھربھی کسی حد تک عملی کوششیں کی گئیں۔ فلم سازی کے لیے ادارے قائم کیےگئے، مختلف ممالک کے ساتھ مشترکہ فلم سازی کی کوششیں کی گئیں لیکن اب گزشتہ کچھ دہائیوں سے ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

حب الوطنی پر مبنی پاکستانی سینما

تقسیم سے پہلے اور بعد میں مذہب، آزادی، حب الوطنی اور دفاع وطن کے تناظر میں بے شمار فلمیں بنائی گئیں اور ایسی فلموں کو شائقین نے بھی پسند کیا۔ افراد سے قوم بننے تک کے سفر میں درپیش مشکلات اور آزمائشوں کا ایک عکس ان فلموں میں بھی ملتا ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے کی فلموں کا موضوع، آزادی کا حصول تھا، بعد از تقسیم بھی کچھ عرصے تک یہ موضوع فلمی منظرنامے پر چھایا رہا۔

قیام پاکستان کے بعد حب الوطنی اور ملک وقوم کے دفاع کا موضوع پاکستانی سینما کا محبوب موضوع بن گیا۔ ان تمام اقسام کی فلموں کے ساتھ ایک اور رنگ فلمی صنعت میں شامل رہا، یہ مذہب سے لگاؤ کا رنگ تھا، جس کے رنگ میں بھی بہت ساری فلمیں رنگی گئیں اور عوام نے ان کو پسند کیا۔ عہدِ حاضر کے سینما میں بھی مذہب اور وطن سے متعلق فلمیں تخلیق ہو رہی ہیں اور ان کی پسندیدگی کا تناسب کامیابی سے ہمکنار ہے۔ گزشتہ ادوار میں تاریخی ومذہبی موضوعات پر بننے والی فلمیں، فرنگی استعمار کے خلاف تخلیق ہونے والا سینما، تقسیمِ ہند کے پس منظر پر بننے والی فلمیں، دفاع پاکستان اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ماضی قریب کا سینما شامل ہے۔

گزشتہ دو تین دہائیوں سے پاکستانی فلمی صنعت میں جتنے نشیب و فراز آئے ہمارے فلم سازوں نے تن تنہا برداشت کیے چاہے وہ امریکا اور ہالی ووڈ کی پروپیگنڈے پر مبنی فلموں کے جواب میں ’خدا کے لیے‘ بنائی گئی فلم ہویا پاکستان کی تخلیق کی جدوجہد دنیا کو دکھانے کے لیے فلم ’جناح‘ بنائی گئی ہو۔ پاکستانی سماج کی معاشرتی بے حسی پر مبنی ’قائداعظم زندہ باد‘ ہو یا پھرپاکستانی جانبازوں کی اپنے ملک کے لیے دیارِغیر میں انجام دی جانے والی خدمات کے تناظر میں ’ضرار‘ بنائی گئی ہو اور پھر سیاسی اشرافیہ کی خراب نیت کی عکاسی کرتی فلم ’مالک‘ ہو، مشرقی پاکستان کے ماہی گیروں کے تناظر میں فیض احمد فیض کی فلم ’جاگو ہوا سویرا‘ بھی ایک سماجی آگاہی اور اپنے وطن سے محبت کا ایک اظہاریہ ہی تھی۔ ایسی ڈھیروں مثالیں ہیں مگر ان فلموں میں زیادہ تر اقدامات وہ ہیں جو فلم سازوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کیے ہیں۔

معروف ہسپانوی ویب سیریز ’منی ہائیسٹ‘ میں پاکستان کا منفی کردار دکھایا گیا، ہندوستانی اور امریکی فلموں میں تو یہ چلن بہت عام ہے، لیکن اب ہمارے فلم ساز بھی اس کاجواب دیتے ہیں جس کے پیچھے صرف اور صرف حب الوطنی کا جذبہ ہی کار فرما ہوتا ہے۔ یہاں ہم ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہوئے ماضی اور حال کی کچھ مزید پاکستانی فلموں کا احاطہ کرتے ہیں، جس سے ہمیں پاکستانی فلم سازوں کی حب الوطنی پر مبنی کوششوں کو نہ صرف سمجھنے کا موقع ملے گا بلکہ یہ تحریر ان کی خدمات کااعتراف بھی ہوگی۔

گزشتہ برسوں کے سینما کا مختصر احوال

گزشتہ سال نمائش پذیر ہونے والی پاکستانی فلمیں جن میں حب الوطنی کا جذبہ نمایاں طور پر منعکس ہوا ان فلموں میں سرفہرست شان شاہد کی فلم ’ضرار‘ اور نبیل قریشی کی فلم ’قائداعظم زندہ باد‘ ہیں۔ پہلی فلم ایکشن سے بھرپور تھی جس میں پاکستانی خفیہ ایجنسی کے ایک کارکن کی وفاداری اور اپنے ملک سے محبت کو منعکس کیا گیا ہے۔ ساتھ ساتھ اس کی بہادری اور فرض شناسی کو کہانی میں عمدہ طریقے سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی۔

دوسری فلم سماج اور معاشرے کی منافقت پر مبنی تھی۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ بطور سماج ہم کس قدر رشوت خور اور بے ایمان ہوچکے ہیں کہ حرام اور حلال کی تمیز بھول گئے ہیں لیکن ایسے ماحول میں بھی کچھ افراد ایسے ہیں جن کا دین ایمان پیسہ نہیں بلکہ عزت اور تہذیب اور اپنی دھرتی سے پیار ہے۔ اسی جذبے کا اظہار یہ فلم کرتی ہے۔

اسی طرح پرواز ہے جنوں، شیر دل، پروجیکٹ غازی،کاف کنگنا، یلغار اور دیگر کئی فلمیں ہیں جو قریبی برسوں میں بنائی گئیں۔ ان فلموں میں سے پہلی فلم پاکستان ایئرفورس کے پائلٹ کی کہانی ہے جس میں دیگر ذیلی کردار بھی موجود ہیں۔ اس فلم کے علاوہ دیگر کسی فلم کو باکس آفس پر کامیابی نہیں ملی جس کی وجہ پروڈکشن کا غیرمعیاری اور تخلیقی معیار کا پست ہونا تھا۔ فلم ’شیر دل‘ کی کہانی پاک فضائیہ کے دو ہوابازوں کی پیشہ ورانہ زندگی پر مشتمل ہے جس میں ان کی بہادری کو نمایاں کرکے دکھایا گیا ہے کہ کس طرح جانباز سپاہی اپنے وطن کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آسمانوں میں بھی وطن کی حفاظت کرتے ہیں۔

فلم ’پروجیکٹ غازی‘ ایک مشن کا کوڈ ورڈ ہوتا ہے جس میں فوجی اور سائنسدان مل کر اپنے وطن کو محفوظ بنانے کے لیے ایک مشن پر کام کررہے ہوتے ہیں اور اس مشن کو لاحق خطرات کاسامناکرتے ہوئے اسے محفوظ بناتے ہیں۔ فلم ’کاف کنگنا‘ ایک رومانوی کہانی ہے جس میں سارک ممالک کے مابین ایک تقریری مقابلہ دکھایا گیا ہے جس میں پاکستانی ہیرو اور انڈین ہیروئن کو ایک دوسرے سے محبت ہوجاتی ہے۔ پھر بہت سارے اختلافات اور تصادم سے گزر کریہ کہانی اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔ ایک اچھی کہانی غیر معیاری ہدایت کاری کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اسی ترتیب میں آخری فلم ’یلغار‘ پاکستان کو درپیش دہشت گردی کے خلاف لڑی گئی جنگ کی عکاسی کرتی ہے جس میں پاکستانی افواج اور عوام نے جان ومال کی قربانیاں دیں۔ قدرے بہتر فلم لیکن مذکورہ دو آخری فلموں میں پروپیگنڈے کارنگ بھی غالب رہا۔

دہشت گردی کے موضوع پر جمال شاہ کی فلم ’بدل‘ بھی اہم تھی۔ اس فلم کو بناتے ہوئے زمینی حقائق کا خیال رکھا گیا اور حقیقت سے قریب ترین ایک ایسی فلم بنائی گئی جو شمالی علاقہ جات میں دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی مؤثر جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے۔ اس موضوع پر یہ ایک معیاری فلم ثابت ہوئی۔ ہرچند کہ اسے بوکس آفس پر زیادہ کامیابی نہ ملی لیکن اس فلم نے اپنے موضوع سے انصاف کیا۔ اسی طرح شہزاد رفیق کی فلم ’سیلوٹ‘ بھی ایک عمدہ موضوع پر بنی فلم تھی جس میں ایک بچہ، جس کا نام ’اعتزاز حسن بنگش‘ تھا، اس کی شہادت کی کہانی بتائی گئی ہے۔ اس نے ایک خود کش بمبار کو روکنے کی کوشش کی اور اپنی جان وطن پر قربان کردی۔ ایک بہت اچھے موضوع پر بنی ہوئی یہ ایک اچھی فلم تھی۔

اسی طرح مشرقی پاکستان کے تناظر میں بنائی گئی فلم ’کھیل کھیل میں‘ میں طلبہ کے ایک ایسے گروہ کو دکھایا ہے جو سقوط ڈھاکہ کے بہت عرصے بعد بنگلہ دیش جاتاہے، وہاں اپنے آبائی علاقے کی کھوج میں ایک طالبہ اپنے ماضی سے ملتی ہے۔ موضوع بہت اچھا مگر فلم اس طرح نہ بن سکی جیسے بننی چاہیے تھی۔ بلال لاشاری کی فلم’ وار’ پاکستان میں دہشت گردی ختم کرنے کے لیے کی گئی کوششوں پر بنائی گئی ایک اہم اور عمدہ فلم ثابت ہوئی،جس نے ہمیں بلال لاشاری جیسا فلم ساز دیا۔

حب الوطنی پر مبنی سینما کا یہ سلسلہ مہرین جبار کی فلم ’رام چند پاکستانی‘ سے ہوتاہوا، شعیب منصور کی فلم ’خدا کے لیے‘ سے لے کر شان شاہد کی فلم ’گنز اینڈ روزز اک جنون‘ اور جمیل دہلوی کی فلم ’جناح‘ تک جاپہنچتا ہے۔ فلم بین جانتے ہیں کہ مہرین جبار کی فلم ’رام چند پاکستانی‘ سرحد کنارے بسنے والے ایک ایسے ہندو خاندان کی کہانی تھی جو تھر کے علاقے میں سکونت پذیر تھا، ایک دن باپ بیٹا گمشدہ ہوجاتے ہیں اور پھر وہ کیسے بھارت کی حراست سے پاکستان پہنچتے ہیں، اسی کہانی کی غماز یہ فلم ہے۔ یہ واحد فلم ہے جس میں مرکزی کردار میں ایک بھارتی اداکارہ نے پاکستانی اداکاروں کے مدمقابل کام کیا ہے۔

اسی طرح شعیب منصور کی فلم ’خدا کے لیے‘ ان پاکستانیوں کی داستان ہے جن پر امریکا میں دہشت گردی کے شبہے میں ظلم وستم کیے گئے نائن الیون کے فوری بعد ایسے بہت سارے واقعات ہوئے جن کا احتجاج یہ فلم ریکارڈ کرواتی ہے۔ شان شاہد اور فواد خان کے ساتھ ساتھ اس فلم میں بھارتی اداکار نصیرالدین شاہ نے بھی اپنے ایک مختصر کردار سے فلم بینوں کے دل موہ لیے۔

پاکستان کے معروف اداکار شان شاہد نے اپنی ہدایت کاری کا آغاز فلم’گنزاینڈ روزز اک جنون’ سے کیا تھا۔ اس فلم میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے بھارتی ذرائع دکھائے گئے۔ یہ فلم اپنی کہانی، موسیقی، اداکاری کے لحاظ سے شاندار تھی۔ اس میں ولن کا کردار فاروق ضمیر جیسے شاندار اداکار نے کیا اور فلم کو چار چاند لگادیے تھے۔ شان شاہد کی یہ فلم اچھی ہدایت کاری کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

آخرالذکر فلم ’جناح‘ پر تو جتنی بات کی جائے کم ہے۔ اس فلم نے ہندوستانی فلم ’گاندھی‘ کا جواب عالمی سینما کے منظرنامے پر دیا۔ جمیل دہلوی نے ایک شاندار فلم بنائی اور لوگ یہاں سے ہالی ووڈ کام کرنے جاتے ہیں وہ ہالی ووڈ کو پاکستان لے آئے۔کرسٹوفرلی ہو یا بھارتی اداکار ششی کپور یا پھر دیگر انگریز اداکار، وہ پاکستان آئے اور انہوں نے اس فلم کی عکس بندی میں حصہ لیا۔ پوری دنیا میں اس فلم کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ دل میں شدید خواہش ہے کہ پھر کوئی فلم ساز اس معیار اور انداز کی فلم بنائے جو سچ میں حب الوطنی پر مبی سینما کا حق اداکرتی ہے۔

ویب سیریز کے نام پر بھی اب کچھ کام ہونے لگا ہے جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے ’دھوپ کی دیوار‘ کے نام سے ایک ویب سیریز بنائی گئی جس میں انڈیا پاکستان کے درمیان عوام میں محبت اور نفرت کے دوآتشہ پہلو کو دکھانے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح اب ان دنوں ہمیں بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ مادرِملت فاطمہ جناح کی زندگی پر ایک ویب سیریز بنائی جارہی ہے تو اپنے وطن سے محبت کے اظہار کاسلسلہ فلم سازوں کی طرف سے جاری ہے۔

ہندوستانی پروپیگنڈے کے سامنے پاکستانی سینما

ہندوستان کی طرف سے مسلسل پروپیگنڈے پر مبنی فلمیں بنتی رہتی ہیں جس طرح رواں برس ایک متوقع فلم ’غدر ایک پریم کتھا‘ کا سیکوئل ہے۔ یہ بظاہر ایک رومانوی کہانی پر مبنی فلم ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر ایک بھارتی شہری، اپنے بیٹے کو واپس لے جانے کے لیے پاکستان آتاہے۔ یہ فلم پروپیگنڈے کی بدترین مثال ہے جس میں تخیل کی بنیاد پر ایسی غیر ضروری باتیں شامل کی گئی ہیں جو حقیقت میں شاید ممکن بھی نہ ہوں۔ بہرحال دونوں طرف ایسے فلم بین موجود ہیں جنہیں اس طرح کی خیالی فلمیں بے حد پسند ہیں۔ اسی طرح ایک اور بھارتی فلم ’مارٹن‘ ہے اس میں مرکزی کردار کی خیالی سیر اسلام آباد شہر میں ہوگی۔ فلم کا ہیرو دہشت گرد عناصر کی تلاش میں سرگرداں دکھایا گیا ہے۔

پہلی فلم تو 11 اگست 2023ء کو بھارت میں ریلیز ہوگئی ہے جبکہ دوسری فلم کی ریلیز بھی رواں برس متوقع ہے۔گزشتہ برس کشمیر فائلز جیسی شدید منفی احساس کے ساتھ بنائی گئی فلم اپنے ہی ملک میں تنقید کا نشانہ بنی۔ اس فلم میں کشمیری پنڈتوں کے بارے میں دکھایا گیا ہے کہ وہ کشمیری مزاحمت کاروں کے ظلم وستم کا نشانہ بنتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا، حکومت، فوج، ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اب اگر حقیقت میں ایسا ہوتا تو اب تک جموں و کشمیر آزاد نہ ہوچکا ہوتا۔ ایسی ملغوبہ فلمیں بھارت میں بنتی رہتی ہیں۔

پاکستان میں رواں برس شعیب منصور کی فلم ’آسمان بولے گا‘ کی نمائش متوقع ہے۔ یہ دونوں ملکوں کے درمیان دو رومانوی کرداروں کے ذریعے محبت کی کہانی سنائے گی۔ اس فلم کی کہانی کا تعلق دونوں ممالک کی فضائیہ سے ہے۔ یعنی یہ دو پائلٹوں کی رومانوی کہانی ہے۔ یہ بھی ایک طرح کا حب الوطنی کے جذبے سے سرشار مگر نرم جواب ہی ہے جو کسی بھی فلمی و سیاسی پروپیگنڈے کے نتیجے میں دیا جائے گا۔

کامران شاہد کی فلم ’ہوئے تم اجنبی‘ بھی مشرقی پاکستان کے سانحےکی یاد کو تازہ کرتی ہوئی فلم تھی جو رواں برس پاکستانی سینما میں نمائش پذیر ہوئی۔اس فلم میں تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح مشرقی پاکستان میں 1971ء کی جنگ میں مکتی باہنی کے ساتھ مل کرعوامی لیگ کے کارکنوں نے مقامی آبادی پر کیا کیا ظلم ڈھائے۔ اسی فضا میں ایک رومانوی پہلو بھی عکس بند کیا گیا۔

فیصل قریشی کی فلم ’منی بیک گارنٹی‘ بظاہر ایک مزاحیہ اور تمثیلی فلم تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمثیل کے انداز میں ہمارے پیارے وطن کے ساتھ جو کچھ مقتدر حلقے کرتے آئے ہیں اس کہانی کو فلم میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ بغور جائزہ لیا جائے تو پاکستانی فلموں میں اس قدر تشدد نہیں ہے جو بھارتی فلموں کا خاصا ہے۔

ہمارے ہاں اکثر ایسی فلموں میں بھی رومانوی پہلو شامل رکھا جاتا ہے جس کی ایک اور مثال ماضی قریب میں بننے والی فلم ’تیرے پیار میں‘ ہے۔ اس کو حسن عسکری نے بنایا تھا۔ اس فلم کی کہانی کے مطابق فلم کی ہیروئن بھارت سے پاکستان اپنا آبائی گھر دیکھنے آتی ہے اور پھر ہیرو اس سے ملنے بھارت جاتا ہے جہاں اس کو دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھر وہ اپنے اور اپنے ملک کا عمدہ طریقے سے دفاع کرتا ہے۔ یہ ماڈل اور اداکارہ زارا شیخ کی پہلی فلم تھی اور شان شاہد نے اس میں بہترین اداکاری کی تھی بلکہ لطف کی بات یہ ہے کہ اس فلم کے تمام معروف گانے بھی ہندوستانی گلوکاروں کی آواز میں ریکارڈ ہوئے جن میں سونو نگم اور ادت نرائن وغیرہ شامل ہیں۔ تو ہماری فلمیں قدرے متوازن ہوتی ہیں لیکن ہندوستان اس موضوع پر فلمیں بناتے ہوئے اکثر متشدد ہوجاتا ہے۔

پاکستانی سینما اور ہماری ذمہ داری

پاکستان کی درجنوں جامعات میں فلم اسٹڈیز کا شعبہ قائم ہے، ان متعلقہ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ پاکستانی طلبا کو اپنے سینما کی تاریخ اور حب الوطنی کا یہ پہلو ضرور دکھائیں جس کا ہم نے یہاں تذکرہ کیا ہے۔ انہیں پروپیگنڈے کی نفسیات پر مبنی سینما کی تفہیم دیتے ہوئے اس کا جواب تخلیق کرنے کی مشق بھی کروائیں کیونکہ یہ نوجوان کل کو ہماری فلمی صنعت کا مستقبل ہوں گے۔ بطور مدرس یہ تعلیمی ادارے اس فریضے کو انجام دیں، بطور پاکستانی شہری، ہمیں چاہیے کہ ہر وہ معیاری فلم جو حب الوطنی کے تقاضے پوری کرتی ہے، اس کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ہماری حکومتوں اور مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ وہ پاکستانی فلمی صنعت کی ازسرنو بحالی کی کوششوں میں اپناحصہ ڈالیں، ایسی پالیسیاں بنائیں جن سے یہ صنعت اپنے قدموں پر کھڑی ہوسکے اور بطور صنعت اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔

سینما مالکان، ڈسٹری بیوٹرز اور اس انڈسٹری سے وابستہ فلم ساز، فنکار اور دیگر کو چاہیے کہ جہاں حب الوطنی کا جذبہ فلمی دنیا کا حصہ ہو وہاں وہ ایک پاکستانی شہری ہونے کے ناطے اپنا کردار ایک فریضہ سمجھ کر انجام دیں۔ دیارِ غیر میں مقیم پاکستانی اپنے سینما کی پذیرائی کریں جس طرح ’دی لیجنڈ آف مولاجٹ‘ کو سراہا۔ غیرملکی فلمی صنعتوں میں کام کرنے والے پاکستانی اور پاکستانی نژاد فلم سازوں اور فنکاروں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ملک کے لیے ایک ثقافتی سفیر کا کام کریں، تاکہ ہمارا پیغام محبت پوری دنیا میں پہنچے۔

ہم سب مل کر جب یہ عہد نبھائیں گے تو صرف پاکستانی فلمی صنعت ہی نہیں بلکہ پاکستان بھی حقیقی معنوں میں ترقی کرے گا۔ بے شک امید پر دنیا قائم ہے اور احمد ندیم قاسمی کا یہ کلام ہرپاکستانی کے لیے انتساب ہے کہ۔۔۔

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال

کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔