کھیل

والد کا مزار سمجھ کر ’کے ٹو‘ سے 200 کلو گرام کچرا صاف کیا، کوہ پیما ساجد سدپارہ

دو پہاڑ ایسے ہیں جہاں کچرا ایک مسئلہ رہا ہے اور وہ ہیں کے ٹو اور ماؤنٹ ایورسٹ، ناروے کی کوہ پیما کرسٹین ہریلا

ساجد سدپارہ دنیا کے دوسرے بڑے پہاڑ ’کے ٹو‘ کو اپنے والد محمد علی سدپارہ کی آخری آرام گاہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔

عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق ساجد علی سدپارہ 8 ہزار 611 میٹر اونچے پہاڑ پر چڑھتے ہوئے وہاں موجود کچرا صاف کر رہے ہیں جن میں استعمال شدہ آکسیجن ماسک، ٹوٹے ہوئے خیمے اور کئی دہائیوں سے پھینکی گئی کوہ پیماؤں کی رسیاں شامل ہیں جو کوہ پیماؤں نے چوٹی تک پہنچنے کی کوشش کے دوران یہی چھوڑ دیے تھے۔

ایک ہفتے کے دوران ساجد، 5 افراد پر مشتمل اپنی ٹیم کے ہمراہ پہاڑ کی چوٹی سے تقریباً 200 کلو گرام (400 پاؤنڈ) کچرا صاف کرنے میں کامیاب ہوئے۔

کچرے کو اونچائی سے نیچے لانا کافی خطرناک تھا لیکن انہوں نے کامیابی سے اس عمل کو پورا کیا۔

ساجد نے یہ اقدام اپنے والد مرحوم کوہ پیما علی سدپارہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کیا تھا، ساجد کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے کے ٹو کو قریب سے دیکھا ہے، ان کا فطرت سے بہت گہرا تعلق تھا، لیکن بدقسمتی سے ان کی موت بھی اسی پہاڑ میں ہوئی۔

ساجد علی سدپارہ نے کے ٹو بیس کیمپ سے غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’یہ کام میں دل سے کر رہا ہوں‘۔

کے ٹو بیس کیمپ 5 ہزار 150 میٹر بلندی پر موجود ہے جہاں سانس لینا مشکل ہے اور جہاں برفانی تودے گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

25 سالہ ساجد کہتے ہیں کہ ’یہ پہاڑ ہمارا ہے اور ہم اس کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پہاڑوں میں زندگی بہت سادہ ہے، میں یہاں آکر فطرت سے جڑا رہتا ہوں۔‘

انہوں نے کہا کہ ہم صرف ذہنی سکون کے لیے پہاڑوں پر رہنا چاہتے ہیں اس لیے جب یہاں کچرا ہوتا ہے تو وہ سکون نہیں مل پاتا۔

مرحوم علی سدپارہ کے قریبی ساتھی عباس سدپارہ نے بتایا کہ کے ٹو اب اتنا خوبصورت نہیں رہا جتنا پہلے ہوا کرتا تھا، ہم نے اس کی خوبصورتی کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کیا ہے۔

ساجد علی سدپارہ نے حال ہی میں اضافی آکسیجن کے بغیر کے ٹو سر کیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پہاڑ سر کرنے کے بعد آپ بہت تھک جاتے ہیں، لیکن بنیادی چیز یہ ہے کہ آپ یہاں زندہ کیسے رہ سکتے ہیں۔‘

انہوں نے حضرت محمدؐ کی حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’صفائی نصف ایمان ہے، چوٹی پر چڑھنا ایک الگ احساس ہے لیکن صفائی ایک ایسی چیز ہے جسے آپ ذاتی طور پر دل سے محسوس کرتے ہیں۔‘

یاد رہے کہ سنہ 2019 میں زمین کے سب سے گہرے مقام ماریانا ٹرینچ میں سمندر سے 11 کلومیٹر نیچے پلاسٹک کا کچرا دریافت ہوا تھا۔

تجارتی مقاصد کے لیے پہاڑی سیاحت کی وجہ سے سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بلند چوٹیوں تک پہنچ رہی ہے۔

ماؤنٹ ایورسٹ بھی کوڑے کرکٹ کے بڑے ڈھیروں کے باعث بدنام ہو رہا ہے۔

کے ٹو پر گزشتہ سیزن میں چوٹیاں سر کرنے والے ریکارڈ 150 سیاح آئے تھے جس کی وجہ سے کوہ پیماؤں کی جانب سے کچرا چھوڑنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

ناروے کی 37 سالہ کوہ پیما کرسٹین ہریلا کہتی ہیں کہ ’دو پہاڑ ایسے ہیں جہاں کچرا ایک مسئلہ رہا ہے اور وہ ہیں کے ٹو اور ماؤنٹ ایورسٹ‘

ہریلا نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ میرا یا آپ کا کچرا نہیں ہے، یہ ہمارا کچرا ہے۔‘

ماہر ماحولیات یاسر عباس کہتے ہیں کہ جتنے زیادہ لوگ پہاڑ سر کرنے جائیں گے اتنا زیادہ کچرا ہوگا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جو لوگ کے ٹو کی صفائی کر رہے ہیں وہ ماحول کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘

ساجد سدپارہ، اضافی آکسیجن کے بغیر براڈ پیک چوٹی سر کرنے والے پہلے پاکستانی کوہ پیما

کے-ٹو پر لاپتا ہونے والے محمد علی سدپارہ، اسنوری، موہر کی لاشیں مل گئیں

محمد علی سد پارہ سمیت 3 کوہ پیماؤں کی تلاش کا عمل روک دیا گیا