سائفر کے شائع مندرجات درست ہیں تو یہ بذات خود بڑا جرم ہے، وزیراعظم
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اگر امریکی خبر رساں ادارے میں شائع سائفر کے مندرجات درست ہیں تو یہ بذات خود بڑا جرم ہے۔
مذکورہ سائفر گزشتہ سال عمران خان حکومت کے دوران امریکا کے لیے پاکستان کے سابق سفیر کو بھیجا گیا تھا جسے عمران خان اپنی حکومت کو گرانے کی سازش کا ثبوت بھی قرار دیتے ہیں۔
مذکورہ سائفر میں امریکی محکمہ خارجہ کے حکام کے درمیان ہونے والی ملاقات کا احوال تھا، اس میں جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو اور پاکستانی سفیر اسد مجید خان موجود تھے اور اس سائفر کا مبینہ متن گزشتہ روز ’دی انٹرسیپٹ‘ نامی امریکی نیوز ویب سائٹ نے شائع کردیا۔
اس بات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہوسکی کہ امریکی نیوز ویب سائٹ کی جانب سے شائع کردہ سائفر کا متن واقعی مستند ہے یا نہیں، تاہم متن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا نے یوکرین جنگ کے حوالے سے عمران خان حکومت کی خارجہ پالیسی پر اعتراضات کیے تھے۔
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے بتایا کہ دفتر خارجہ کی جانب سے مبینہ لیکس پر تبصرہ نہیں کیا جاتا، تبصرے کے لیے وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے سائفر کے شائع شدہ مذکورہ متن کی تصدیق کے حوالے سے تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ اس کے مندرجات میں امریکا کی جانب سے ایسے کسی مؤقف کا کوئی اشارہ نہیں مل رہا کہ پاکستان کی قیادت کس رہنما کے پاس ہونی چاہیے۔
پروٹوکول کے مطابق صرف چند اہم عہدیداروں کو خفیہ دستاویز تک رسائی حاصل ہوتی ہے، ان میں وزیر خارجہ، وزیراعظم اور آرمی چیف شامل ہیں۔
سائفر کا مبینہ متن شائع کرنے کے لیے یہ وقت بھی اس تناظر میں کافی اہم معلوم ہوتا ہے جب توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو بدعنوانی کے الزام میں 3 سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے اور وہ اس وقت جیل میں ہیں جبکہ حکومت بھی اپنی مدت پوری کر چکی ہے۔
آج ’وی نیوز‘ کو انٹرویو کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف سے پوچھا گیا کہ کیا دی انٹرسیپٹ اسٹوری نے عمران خان کے سائفر اور غیر ملکی سازش کے دعوے کو درست ثابت کردیا ہے؟
اس کے جواب میں شہباز شریف نے کہا کہ ’آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ میری قیادت میں قومی سلامتی کمیٹی کے دو اجلاس ہوئے تھے، ایک ملاقات میں سابق سفیر اور سیکریٹری خارجہ اسد مجید نے واضح طور پر کہا تھا کہ ڈونلڈ لو سے ان کی ملاقات میں کسی سازش پر بات نہیں ہوئی۔‘
انہوں نے کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دیگر سروسز چیفس نے بھی تصدیق کی کہ پاکستان کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوئی، اسد مجید نے بھی کہا تھا کہ سازش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران نیازی نے کہا کہ روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے یہ سازش رچی گئی ہے لیکن میری حکومت نے روس سے سستا تیل خریدا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اگر خدانخواستہ یہ حکومت امریکی سازش سے آئی ہوتی تو یہ ہم سب کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہوتا۔
انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ عمران خان خود اپنے بیانیے سے مکر گئے تھے اور کہا تھا کہ امریکا نے کبھی کوئی سازش نہیں کی، کیا آپ عمران نیازی کے پہلے بیان کو درست مانیں گے یا دوسرے کو؟ پی ٹی آئی چیئرمین کے بیانات ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا ایک سابق وزیر اعظم، ملک کے خلاف اس حد تک نفرت پھیلا سکتا ہے؟ اپنے آپ میں، اگر بین الاقوامی اخبار میں شائع سائفر کے مندرجات درست ہیں تو یہ بذات خود بڑا جرم ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ عمران کے سازشی الزامات سر سے پاؤں تک جھوٹ کا پلندہ ہیں اور ان میں کوئی حقیقت نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اتحادی حکومت نے پی ٹی آئی کے دور میں خراب ہونے والے امریکا اور پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے انتھک محنت کی اور باہمی احترام اور اعتماد قائم کیا۔
دوسرے برادر ممالک کے ساتھ پاکستان کے خراب تعلقات کے سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ عمران خان کی زیر قیادت حکومت نے سعودی عرب کو پریشان کر دیا تھا، میں تفصیلات میں نہیں جا سکتا لیکن سعودی عرب کو نیچا دکھانے کے لیے، سعودی عرب کو الگ تھلگ کرنے کے لیے ایک بلاک بنانے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے برادر ممالک شدید نالاں تھے، سعودی عرب نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہر مشکل وقت میں ہماری مدد کی، یہ انتہائی شرمناک ہے کہ ایک ایسا ملک جس نے اتنے سالوں تک پاکستان کی مدد کی، اس کے ساتھ اس طرح کا رویہ رکھا گیا۔
’دی انٹرسیپٹ‘ کی خبر
’دی انٹرسیپٹ‘ کی جانب سے سائفر کے شائع کردہ مبینہ متن کے مطابق ڈونلڈ لو نے یوکرین تنازع پر پاکستان کے مؤقف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں (امریکا) اور یورپ کے لوگ اس بات پر کافی پریشان ہیں کہ پاکستان (یوکرین کے معاملے پر) اس قدر جارحانہ انداز میں غیرجانبدارانہ مؤقف کیوں اختیار کر رہا ہے، یہ ہمیں اتنا غیر جانبدارانہ مؤقف نہیں لگتا، ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں مشاورت کے بعد بالکل واضح لگ رہا ہے کہ یہ وزیر اعظم کی پالیسی ہے۔
جواب میں اسد مجید خان نے کہا تھا کہ یہ صورتحال کا درست مشاہدہ نہیں ہے، یوکرین کے بارے میں پاکستان کا مؤقف انٹر ایجنسی مشاورت کا نتیجہ ہے۔
سائفر کے مبینہ متن میں مزید کہا گیا کہ ’میں نے ڈونلڈ لو سے پوچھا کہ کیا امریکا کے سخت ردعمل کی وجہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ میں پاکستان کی عدم شرکت تھی؟ جواب میں انہوں نے واضح طور پر تردید کی اور کہا کہ اس کی وجہ وزیر اعظم (عمران خان) کا دورہ روس ہے‘۔
متن کے مطابق ڈونلڈ لو نے کہا کہ ’میرے خیال میں اگر وزیر اعظم (عمران خان) کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو امریکا کی جانب سے سب کو معاف کر دیا جائے گا، کیونکہ دورہ روس کو صرف وزیر اعظم (عمران خان) کے ہی فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، بصورت دیگر مجھے لگتا ہے کہ ساتھ آگے چلنا مشکل ہوگا۔‘
سائفر کے مبینہ متن کے یہ الفاظ بظاہر اسی دھمکی کا اشارہ دے رہے ہیں جس کا دعویٰ سابق وزیر اعظم نے کیا تھا اور اسے اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کی امریکی سازش قرار دیا تھا۔
ایک سینئر سفارت کار نے ڈونلڈ لو کے ریمارکس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’بظاہر اس میں کوئی سازش نہیں ہے لیکن ایک امریکی عہدیدار کی جانب سے ایسے الفاظ استعمال کرنا ناقابل قبول ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجائے تو سب کو معاف کر دیا جائے گا‘۔
سائفر کے مبینہ متن میں بتایا گیا کہ اسد مجید خان نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی کہ عمران خان کا دورہ روس ایک دو طرفہ دورہ تھا اور اسے یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کی تائید کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔
مبینہ متن کے مطابق اسد مجید خان نے یہ مؤقف بھی رکھا کہ (پاکستان میں) یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ امریکا ان تمام معاملات پر پاکستان کی حمایت کی توقع کرتا ہے جو امریکا کے لیے اہم ہیں لیکن پاکستان کے لیے تشویشناک مسائل، خاص طور پر مسئلہ کشمیر پر ہمیں کوئی خاص امریکی حمایت نظر نہیں آتی۔
اسد مجید خان نے امریکی سفارت کار سے یہ سوال بھی کیا کہ ’اگر یوکرین کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف امریکا کے لیے اتنا اہم ہے تو اس نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس سے قبل پاکستان کے ساتھ بات چیت کیوں نہیں کی؟‘
اس پر ڈونلڈ لو نے جواب دیا کہ ’امریکا کی جانب سے یہ سمجھا جارہا تھا کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران کو دیکھتے ہوئے یہ اس طرح کی بات چیت کا صحیح وقت نہیں ہے اور اس کے لیے پاکستان کے سیاسی حالات ٹھیک ہونے تک انتظار کیا جا سکتا ہے۔‘
سائفر کے مبینہ متن کے آخری سرے پر اپنے تجزیے میں اسد مجید خان نے کہا کہ ’ڈونلڈ لو اتنے ٹھوس انداز میں تحفظات کا اظہار وائٹ ہاؤس کی واضح منظوری کے بغیر نہیں کر سکتے تھے جس کا انہوں نے بارہا حوالہ بھی دیا۔‘
اسد مجید خان نے اپنے تجزیے میں مزید کہا کہ ’یہ واضح ہے کہ ڈونلڈ لو نے پاکستان کے داخلی سیاسی امور پر غیر ذمہ دارانہ انداز میں بات کی، ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنے اور اسلام آباد میں امریکی ناظم الامور کو مناسب انداز میں ڈیمارش جاری کرنے کی ضرورت ہے۔‘