Parenting

والدین کے درمیان جھگڑا بچوں کی ذہنی صحت کو کیسے متاثر کرتا ہے؟

میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑا اور بحث کرنا معمول کی بات ہے لیکن اگر یہ اختلافات معمول بن جائیں تو ان کا بچوں کے ذہن پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑا اور بحث کرنا معمول کی بات ہے لیکن اگر یہ اختلافات معمول بن جائیں تو ان کا بچوں کے ذہن پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

گھر کا ماحول بچوں کی ذہنی صحت اور نشوونما کو متاثر کرتا ہے، گھر میں والدین کا بچوں کے درمیان رشتہ ہی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ میان بیوی کا آپس میں تعلق بھی بچے کی فلاح و بہبود میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔

گھر میں میاں بیوی کا آپس میں تعلق بچے کی ذہنی صحت سے لے کر تعلیم کے میدان میں کامیابی اور مستقبل میں دیگر لوگوں سے نئے تعلقات بنانے تک ہر چیز کو متاثر کرتا ہے۔

یہاں تک کہ جب دو لوگ مثبت انداز میں بحث کر رہے ہوں، تو اس کے اچھے نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔

زیادہ تر معاملات میں بحث و مباحثے کا بچوں پر بہت کم یا کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔

لیکن مسائل اس وقت شدت اختیار کرتے ہیں جب والدین چیختے ہیں اور ایک دوسرے سے طویل مدت تک ناراض رہتے ہیں۔

برطانیہ اور دنیا بھر کے محققین اس بات کا مطالعہ کر رہے ہیں کہ جب بچے گھر میں لڑائی جھگڑے کو دیکھتے ہیں تو ان کی ذہنی حالت کیسے متاثر ہوتی ہے۔

یہ جاننے کے لیے محققین کئی سالوں سے متعدد گھروں کا ماحول کا جائزہ لے رہے ہیں، ایسا کرنے کے لیے محققین بچوں کی نشوونما پر نظر رکھتے ہیں، اور کچھ خاص ٹیسٹ کر رہے ہیں۔

تحقیق کے ذریعے معلوم ہوا کہ جب اردگرد لڑائی جھگڑا ہو رہا ہو تو بچے 6 ماہ کی عمر تک تناؤ کے آثار دکھا سکتے ہیں، ایسی صورت میں بچہ گھبرا جاتا ہے اور ان کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور جسم میں ایسے ہارمون کی افزائش زیادہ ہوتی جو تناؤ سے جڑے ہوتے ہیں۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چھوٹے بچے بھی جب لوگوں کو جھگڑتا دیکھتے یا سنتے ہیں تو پریشان ہو سکتے ہیں۔

میاں بیوی کے درمیان مسلسل جھگڑوں سے نوعمر بچے یا 10 سال سے کم عمر بچوں کو دماغی نشوونما میں خلل، نیند میں دشواری، اداس محسوس کرنا، ڈپریشن اور دیگر سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

تاہم کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میاں بیوی کے درمیان علیحدگی یا طلاق کے نتیجے میں بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

لیکن اب بعض ماہرین کا خیال ہے کہ میاں بیوی کے درمیان علیحدگی زیادہ بڑا مسئلہ نہیں ہے، اس کے بجائے میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑا بچوں کے لیے زیادہ مسائل پیدا کرتا ہے۔

مثال کے طور پر جب میاں کا کسی بات پر اختلاف ہو اور بات بحث و مباحثے سے بڑھ کر لڑائی جھگڑے اور چیخنے چلانے تک پہنچ جائے تو سامنے بیٹھا بچہ خوفزدہ، اداس اور سہما ہوا محسوس کرے گا۔

’والدین کے لڑائی جھگڑے سے بچے خود کو نقصان پہنچا سکتے ہیں‘

سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ میاں بیوی کا ایک دوسرے سے بحث کرنا یا اختلاف کرنا بالکل معمول کی بات ہے۔

تاہم جب میاں بیوی کے درمیان تنازعات معمول بن جائیں اور اس کا کوئی حل نظر نہ آئے تو حالات شدت اختیار کرجاتے ہیں، ایسے میں بعض اوقات والدین کے درمیان لڑائی جھگڑے کے لیے بچے خود کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔

ایسے میں بچوں کی نیند میں خلل، دماغی کمزوری، بے چینی، ڈپریشن، خراب تعلیمی کارکردگی اور دیگر سنگین مسائل میں بچے خود کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔

نہ صرف بچے اپنے آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں بلکہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ والدین کے خراب تعلقات ایک نسل سے دوسری نسل تک جاری رہتے ہیں۔

’بچے والدین کے ہر عمل کا جائزہ لیتے ہیں‘

تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ تقریباً 2 یا اس سے بھی کم عمر کے بچے والدین کے رویے کو غور سے جانچنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے ہر عمل کو نوٹ کرتے ہیں۔

میاں بیوی سمجھتے ہیں کہ اگر وہ الگ کمرے میں بحث یا لڑائی کریں گے تو اس سے ان کا بچہ محفوظ رہے گا لیکن ایسا نہیں ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ بچے تنازعات کے اسباب اور ممکنہ نتائج کا ادراک کیسے کرتے ہیں۔

ماضی کے تجربے کی بنیاد پر ممکنہ طور پر مستقبل میں بچوں کے خیالات میں ہر مسئلے کا حل لڑائی جھگڑا ہوسکتا ہے اور وہ مسائل کو لڑائی سے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ایسے ماحول میں لڑکے اور لڑکیاں مختلف طریقے سے ردعمل دے سکتے ہیں، لڑکیوں کو جذباتی مسائل کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے اور لڑکوں کو رویے کے مسائل کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

بعض اوقات بحث کرنا یا اختلاف کرنا معمول کی بات ہے اور جب والدین کے درمیان یہ اختلاقات کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو بچے مثبت ردعمل دیتے ہیں۔

ایسی صورت میں بچے یہ سیکھتے ہیں کہ کسی کے ساتھ جھگڑا یا بحث ہونے کی صورت میں صورتحال کو کیسے کنٹرول کیا جائے اور رشتوں کو کیسے کامیاب بنایا جائے۔

کیا آپ ’والدین کے عالمی دن‘ کے بارے میں جانتے ہیں؟

’ڈپریشن کے شکار باپ کا بچوں کے رویے میں اہم کردار ہوتا ہے‘

نومولود بچوں میں نیند کی کمی سے پریشان والدین آخر کیا کریں؟