نقطہ نظر

’اس اسمبلی نے 5 برس تک ایک ہی جماعت کی حکمرانی کی ریت توڑ ڈالی ہے‘

اس مرتبہ بھی کوئی وزیراعظم 5 برس کی آئینی مدت مکمل نہیں کرسکا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ اپوزیشن لیڈر پہلی بار قومی اسمبلی کی تحلیل سے 16 ماہ پہلے وزیر اعظم بن گئے۔

ملک کی پارلیمانی تاریخ میں ایک اور قومی اسمبلی نے اپنی میعاد مکمل کرلی لیکن اس مرتبہ بھی کوئی وزیراعظم اپنی 5 برس کی آئینی مدت مکمل نہیں کرسکا۔ البتہ اس مرتبہ یہ ضرور ہوا کہ قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر پہلی بار اسمبلی کی تحلیل سے 16 ماہ پہلے وزیر اعظم بن گئے۔

2018ء کے عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کو اس کی میعاد مکمل ہونے کے عین 3 دن پہلے تحلیل کرنے کی سمری صدر مملکت عارف علوی کو بھجوا دی گئی۔ صدر مملکت کی منظوری کے بعد یہ قومی اسمبلی تحلیل ہوچکی ہے۔ تحلیل ہونے والی قومی اسمبلی ماضی کی اسمبلیوں کی نسبت خاصی مختلف رہی اور ایسے پارلیمانی واقعات رونما ہوئے جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی ہے۔ ملک کی تاریخ میں جہاں ایک اپوزیشن حکومت میں آئی وہیں عمران خان تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ ہونے والے پہلے وزیر اعظم بنے۔ اس اسمبلی میں وزیراعظم سمیت اپوزیشن لیڈر اور اسپیکر سب ہی تبدیل ہوئے۔

پہلی کامیاب تحریک عدم اعتماد

2002ء سے 2023ء تک یعنی الگ بھگ 20 برسوں میں 9 سیاسی شخصیات وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہیں۔ اگر ماضی پر نظر ڈالی جائے تو قیام پاکستان کے بعد تقریباً 11 برس میں 7 وزرائے اعظم رہے اور اوپر تلے تیزی سے وزیراعظم تبدیل ہوئے۔

عمران خان پہلے وزیراعظم تو نہیں تھے جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی لیکن وہ اس حوالے سے ضرور پہلے وزیراعظم بن گئے جن کو تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی وجہ سے اپنے عہدے سے الگ ہونا پڑا۔ ان سے پہلے 1989ء میں بےنظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تھی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکی اور اس کے ڈیڑھ دہائی بعد پھر ایک مرتبہ پھر اپوزیشن کی جماعتوں نے وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جو بے نتیجہ رہی۔

ایک اسمبلی کی دو مرتبہ تحلیل

اس قومی اسمبلی کی 2 مرتبہ تحلیل کی سمری صدر مملکت کو بھجوائی گئی۔ پہلی بار گزشتہ برس عدم اعتماد کی قرارداد پر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے نتیجے میں قرارداد کو نمٹانے پر اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھجوائی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کی وجہ سے قومی اسمبلی تحلیل نہیں ہوئی اور پھر 10 اپریل 2022ء کو عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے پر اپوزیشن لیڈر وزیراعظم چنے گئے اور تحریک انصاف کے ارکان نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفے دے دیے۔

آئینی ترامیم اور وزرائے اعظم کی تبدیلی

ویسے تو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کے آئین کے تحت قائم ہونے والی اسمبلی کو اس کی میعاد کی تکمیل سے پہلے ہی تحلیل کر دیا تھا اور پھر مشہور آٹھویں ترمیم کے ذریعے صدر مملکت کو اسمبلی توڑنے کے اختیارات ملے تو 1985ء سے 1996ء تک اسمبلیاں اسی صدارتی اختیار کی وجہ سے وقت سے پہلے ہی توڑی جاتی رہیں۔

اس میں بےنظیر بھٹو کی حکومت پر 18 ماہ بعد ہی صدارتی اختیارات کی کلہاڑی چلا دی گئی تھی۔ فوجی صدر جنرل ضیا الحق نے 1988ء میں محمد خان جونیجو کو، غلام اسحٰق خان نے 1990ء میں بےنظیر بھٹو اور 1993ء میں نواز شریف کو اور سردار فاروق احمد خان لغاری نے بےنظر بھٹو کی حکومت کو چلتا کیا۔ فاروق لغاری بےنظیر بھٹو کے سب سے قابل لوگوں میں سے ایک تھے اور سب کا یہی گمان تھا کہ وہ اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔

1997ء میں نواز شریف اقتدار میں آئے اور بھاری اکثریت ہونے کی وجہ سے انہوں نے اسمبلی توڑنے کے صدارتی اختیار کو آئینی ترمیم سے ختم کر دیا۔ اس عمل میں بےنظیر بھٹو کی قیادت میں 17 ارکان اسمبلی پر مشتمل اپوزیشن نے بھی حکومت کا ساتھ دیا لیکن یہ اختیار ختم ہونے کے باوجود نواز شریف کی حکومت اپنی مدت مکمل نہیں کرسکی۔ 12 اکتوبر 1999ء کو ایک فوجی اقدام کے ذریعے ان کی حکومت ختم ہوگئی اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔

اگرچہ جنرل پرویز مشرف نے لیگل فریم ورک (ایل ایف او) کے ذریعے اسمبلی تحلیل کرنے کے صدارتی اختیار کو بحال تو کردیا لیکن اس اختیار کو استعمال کرنے کی نوبت نہیں آئی اور 2002ء میں قائم ہونے والی اسمبلی پارلیمانی تاریخ میں پہلی اسمبلی بن گئی جس نے اپنی میعاد مکمل کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کے اپنی 5 برس کی میعاد مکمل نہ کرنے کی ریت پڑ گئی۔

2002ء کی اسمبلی نے 2 برس میں 3 وزرائے اعظم کو دیکھا۔ پہلے ظفر اللہ خان جمالی، پھر چوہدری شجاعت حسین اور اس کے بعد شوکت عزیز اسمبلی کی تحلیل تک وزیر اعظم رہے۔ ان تینوں وزرائے اعظم میں چوہدری شجاعت حسین سب سے کم عرصے کے لیے وزیر اعظم رہے۔

اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اسمبلی کی تحلیل کے صدارتی اختیار کو دوبارہ ختم کردیا گیا لیکن پھر بھی کوئی وزیراعظم اپنی آئینی مدت مکمل نہیں کرسکا۔ 2008ء کی اسمبلی اپنے مقررہ وقت پر ختم ہوئی لیکن پہلے یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے اور توہین عدالت کی سزا پر اسمبلی کی رکنیت سے نااہل ہوئے پھر اسمبلی کی باقی مدت کے لیے راجا پرویز اشرف کو وزیر اعظم بنایا گیا۔ 2013ء میں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے لیکن ماضی کی طرح تیسری مرتبہ بھی اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کرسکے۔ نواز شریف کو اپنے خلاف مقدمات میں سزا کی وجہ سے عہدے سے الگ ہونا پڑا اور پھر شاہد خاقان عباسی کو اس منصب کے لیے چنا گیا۔

2018ء میں عمران خان کو وزارت عظمیٰ ملی تو یہ گمان کیا گیا کہ شاید اس مرتبہ وزیر اعظم اپنی مدت مکمل کرلیں لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ 10 اپریل 2002ء کو تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے پر اسمبلی کی میعاد سے ٹھیک 16 ماہ پہلے انہیں عہدے سے الگ ہونا پڑگیا اور ان کی جگہ اپوزیشن لیڈر نئے وزیر اعظم بن گئے۔

اسمبلی سے استعفوں پر غیر یقینی کے بادل

تحریک عدم اعتماد کے بعد عمران خان سمیت ان کی جماعت کے ارکان اسمبلی مستعفی تو ہوگئے لیکن اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے بار بار مطالبے کے باوجود استعفے منظور نہیں کیے لیکن پھر سیاسی صورت پر استعفے منظور کرلیے۔ اس پر تحریک انصاف نے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا اور استعفے منظور کرنے کے اقدام کو چیلنج کیا۔ اس پر لاہور ہائیکورٹ نے ان کی رکنیت بحال کر دی۔ اس کے بعد سیکریٹری قومی اسمبلی نے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جس پر لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے رکنیت بحال کرنے کے فیصلے کو معطل کر دیا۔ یہ معاملے اب بھی لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے لیکن اسمبلی ختم ہونے کی وجہ سے سیکریٹری قومی اسمبلی کی اپیل بھی غیر مؤثر ہوجائے گی۔

اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی

یہ دوسری قومی اسمبلی ہے جس میں اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی ہوئی۔ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد اپوزیشن لیڈر کے لیے قرعہ فال راجا ریاض کے نام کا نکلا۔ 2008ء کی قومی اسمبلی میں یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے تو سابق وزیر اعلٰی پنجاب پرویز الٰہی کو اپوزیشن لیڈر کا منصب ملا لیکن مسلم لیگ (ن) کے حکومت سے الگ ہونے کی وجہ سے پرویز الٰہی نے اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے استعفی دے دیا اور مسلم لیگ (ن) کے چوہدری نثار علی خان قائد حزب اختلاف بن گئے۔

اسپیکر کی تبدیلی

لگ بھگ 30 برس کے بعد ایسا ہوا کہ اسپیکر قومی اسمبلی بھی تبدیل ہوئے۔ 1985ء میں فخر امام اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئے لیکن کچھ عرصے بعد ان کے خلاف عدم اعتمادکی تحریک آئی اور وہ کامیاب ہوگئی۔ پھر ان کی جگہ حامد ناصر چٹھہ اسپیکر قومی اسمبلی چنے گئے۔ اب 3 برس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے عہدہ چھوڑا تو ان کی جگہ پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف اسپیکر قومی اسمبلی بنے۔

راجا پرویز اشرف پہلے وزیراعظم ہیں جو وزارت عظمٰی پر فائز رہنے کے بعد اسپیکر بنے۔ ان سے پہلے یوسف رضا گیلانی پہلے اسپیکر قومی اسمبلی اور پھر وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ معراج خالد پہلے اسپیکر قومی اسمبلی بنے اور اس کے بعد انہیں 1996ء میں نگران وزیر اعظم بنایا گیا تھا۔ 1973ء کے آئین تحت قائم ہونے والی قومی اسمبلی کے اسپیکر چودھری فضل الٰہی پہلے اسپیکر منتخب ہوئے تھے اور اس کے بعد وہ اسی آئین کے تحت پہلے صدر مملکت چنے گئے تھے۔

اسمبلی کی دل چسپ ترین بات

اس قومی اسمبلی کی دل چسپ ترین بات اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر راجا ریاض کا تقرر ہے جو آئندہ عام انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر حصہ لینے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں۔ اس پہلے 2013ء میں پنجاب اسمبلی میں شہباز شریف قائد ایوان یعنی وزیر اعلٰی تھے اور راجا ریاض صوبائی اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر تھے۔

2002ء سے 2018ء تک 7 وزیر اعظم تو بدلے گئے لیکن برسرِاقتدار سیاسی جماعت کی حکومت تبدیل نہیں ہوئی یعنی پہلے مسلم لیگ (ق) نے 5 برس پھر پیپلز پارٹی اور آخر میں مسلم لیگ (ن) نے حکومت مکمل کی۔ سبکدوش ہونے والی اس اسمبلی نے وزرائے اعظم تبدیل ہونے کی روایت تو برقرار رکھی لیکن 5 برس ایک سیاسی جماعت کی حکمرانی کی ریت توڑ ڈالی ہے۔

عباد الحق

عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔