پاکستان

اہل بیت، امہات المومنین اور صحابہؓ کی توہین پر 10سال سزا کا بل سینیٹ سے منظور

مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر حافظ عبدالکریم نے بل پیر کو سینیٹ میں پیش کیا تھا جسے منظور کر لیا گیا۔

سینیٹ نے نبی آخر الزمان رسول اللہﷺکے خاندان، ازواج مطہراتؓ، صحابہ کرامؓ اور چاروں خلفائے راشدین سمیت مقدس شخصیات کے خلاف توہین آمیز کلمات استعمال کرنے پر سزا تین سال سے بڑھا کر کم از کم 10 سال کرنے کا بل منظور کر لیا۔

فوجداری قانون (ترمیمی) بل 2023 کے عنوان سے یہ بل قومی اسمبلی نے جنوری میں صرف 15 قانون سازوں کی موجودگی میں منظور کیا تھا۔

فروری میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض حسین پیرزادہ نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ان ترامیم کو کالعدم قرار دینے کی تجویز پیش کی تھی جہاں ان کا کہنا تھا کہ ان ترامیم کا مقصد ’ایک مخصوص گروہ کو خوش کرنا‘ ہے اور انہیں ’پارلیمانی کارروائی کے اصولوں کو پورا کیے بغیر‘ منظور کیا گیا تھا۔

وزیر اعظم کو لکھے گئے خط میں ریاض پیرزادہ نے کہا تھا کہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کا تحفظ کرے کیونکہ یہ اسلامی حکم کے ساتھ ساتھ آئینی ذمہ داری بھی ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اقلیتیوں نے پارلیمانی امور میں ایک اچھے عمل کو نظر انداز کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا جہاں اس عمل کا مقصد کسی مخصوص گروپ کو نشانہ بنانے کے بجائے تکنیکی خرابیوں کو دور کرنا ہوتا ہے۔

چھ ماہ بعد مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر حافظ عبدالکریم نے اسے پیر کو سینیٹ میں پیش کیا جسے منظور کر لیا گیا، سینیٹ کے ایجنڈے میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کا بھی ذکر کیا گیا جنہوں نے اس بل کو پیش کیا تھا۔

قانون سازی کے حق میں دلائل دیتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ سوشل میڈیا پر توہین مذہب کی کارروائیاں دیکھی جا رہی ہیں، انہوں نے نشاندہی کی کہ موجودہ قانون کسی حد تک ’غیر موثر‘ ہے اور اس بل کا مقصد اسے مزید موثر بنانے کے لیے ٹھیک کرنا ہے۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس بل کو متفقہ طور پر منظور کیا جانا چاہیے۔

اسی طرح وزیر برائے مذہبی امور سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ بل سے کسی کے جذبات مجروح نہیں ہوئے اور اسے اتفاق رائے سے منظور کیا جائے۔

تاہم پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن سمیت ایوان کے کچھ ارکان اس بات پر مصر تھے کہ بل کو نظرثانی کے لیے متعلقہ کمیٹی کو بھیجا جانا چاہیے۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ جلد بازی میں بل پاس کی روایت بن چکی ہے، ابھی ہم نے بل دیکھا تک نہیں ہے، ہمیں تمام انبیا کے احترام کا خیال ہے لیکن اس بل کو غور فکر کے بغیر محض مذہب کے نام پر منظور نہیں ہونا چاہیے۔

لیکن بل پیش کرنے والے حافظ عبدالکریم نے اصرار کیا کہ بل کو ووٹنگ کے لیے پیش کیا جائے۔

اس کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بل پر ووٹنگ کرائی اور اسے منظور کر لیا گیا۔

بل

اس بل کے تحت پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298-الف میں ترمیم کی تجویز پیش کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری، یا مرئی نقوش کے ذریعے یا کسی تہمت، کنایہ، یا درپردہ تعریض کے ذریہعے بلاواسطہ رسول پاکﷺ کی ازواج مطہرات(ام المومنین)، یا رسول پاکﷺ کے خاندان کے کسی فرد(اہل بیت) یا رسول اکرمﷺ کے خلفائے راشدین یا ساتھیوں(صحابہ کرام) میں سے کسی کے متبرک نام کی توہین کرے گا تو اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے یا یا جرمانے کی سزا یا دونوں دی جائیں گی۔

بل میں اس شق میں ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس جرم کی سزا ’عمر قید ہو جس کی مدت 10 سال سے کم نہیں ہونی چاہیے۔

اسی طرح، بل ضابطہ فوجداری کے دوسرے شیڈول میں ترامیم کی تجویز پیش کرتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ PPC کی دفعہ 298-الف میں بیان کردہ جرم کی پہلی صورت میں عام طور پر کسی مشتبہ شخص کے لیے ’وارنٹ‘ جاری کیا جانا چاہیے، جرم کو ناقابل ضمانت قرار دیں، سزا کو بڑھا کر کم از کم 10 سال قید کریں اور بیان کریں کہ اس جرم کے مشتبہ افراد پر ’سیشن کورٹ‘ کے ذریعے مقدمہ چلایا جائے۔

مزید برآں، بل کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ کچھ افراد ’انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر توہین رسالت‘ میں ملوث ہیں اور یہ کہ حضور اکرمﷺ کے صحابہ سمیت معزز شخصیات کی توہین کی کارروائیاں ’دہشت گردی‘ کا سبب بن رہی ہیں، ملک میں امن عامہ کی صورتحال خراب کررہی ہیں اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگی کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

اس بل میں جرم کے لیے موجودہ سزا کو ’سادہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس کی وجہ سے لوگ اپنے طور پر ملزمان کو سزا دیتے ہیں جس سے تشدد میں اضافہ ہوتا ہے۔

رضوانہ پر تشدد جیسے واقعات پڑھے لکھے گھرانوں میں ہوتے ہیں، ماہرہ خان

غرناطہ میں کرسٹوفر کولمبس کا یہ مجسمہ کیوں نصب ہے؟

بھارت نے ملٹری ڈرون بنانے والوں کو چینی پرزہ جات کے استعمال سے روک دیا