لائف اسٹائل

رضوانہ پر تشدد جیسے واقعات پڑھے لکھے گھرانوں میں ہوتے ہیں، ماہرہ خان

کم سن رضوانہ پر تشدد کا واقعہ 25 جولائی کو اسلام آباد میں رپورٹ ہوا تھا، 7 اگست کو بچی پر تشدد کرنے والی ملزمہ کو احاطہ عدالت سے گرفتار کیا گیا۔

’سپر اسٹار‘ اداکارہ ماہرہ خان نے پنجاب کے شہر سرگودھا سے تعلق رکھنے والی 13 سالہ گھریلو ملازمہ رضوانہ پر سول جج کی اہلیہ کے بہیمانہ تشدد پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے کیسز عام طور پر پڑھے لکھے اور بااثر گھرانوں میں ہوتے ہیں۔

ماہرہ خان کی ویڈیو کو اداکارہ و سماجی رہنما نادیہ جمیل نے ٹوئٹ کیا، جس میں اداکارہ رضوانہ تشدد پر بات کرتی دکھائی دیں۔

مختصر ویڈیو میں ماہرہ خان نے شوبز سمیت دیگر شخصیات سے رضوانہ تشدد کیس جیسے دوسرے واقعات پر آواز اٹھانے کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ چونکہ ایسے افراد کو بہت سارے لوگ جانتے ہیں، اس لیے ان کی آواز اثر رکھتی ہے۔

انہوں نے ویڈیو میں کہا کہ بچوں سے مشقت کروانا غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے اور اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

ماہرہ خان نے کہا کہ بچوں کو کام کے لیے بھیجنے پر غریب والدین سے کوئی شکایت نہیں لیکن ان سے کام کروانے والے امیر افراد کو یہ نہیں کرنا چاہیے۔

اداکارہ کا کہنا تھا کہ عام طور پر رضوانہ جیسے واقعات پڑھے لکھے اور بااثر امیر گھرانوں میں ہوتے ہیں۔

ان کے مطابق چونکہ ایسے گھرانوں کے مالکان کو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ انہیں آسانی سے ضمانت مل جائے گی، وہ قانون کی گرفت سے بچ جائیں گے، انہیں کچھ نہیں ہوگا۔

اداکارہ نے سماجی رہنماؤں، سیاست دانوں اور معروف شخصیات سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے کیسز پر آواز اٹھاکر مظلوم بچوں کو انصاف دلانے کی کوشش کریں، کیوں کہ ایسے افراد کی آوازیں سنی جاتی ہیں۔

ماہرہ خان سے قبل سجل علی نے بھی رضوانہ پر تشدد پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ملزمان کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا اور ساتھ ہی انہوں نے شوبز شخصیات کو مذکورہ معاملے پر آواز اٹھانے کا بھی کہا تھا۔

خیال رہے کہ 13 سالہ رضوانہ پر تشدد کا واقعہ 25 جولائی کو اسلام آباد میں رپورٹ ہوا تھا، جس کے بعد اسلام آباد پولیس نے سول جج کی اہلیہ کے خلاف گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کا مقدمہ درج کیا تھا۔

26 جولائی کو پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ 13 سالہ گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد میں ملوث جج اور ان کی اہلیہ روپوش ہوگئے، بعد ازاں جج کی اہلیہ نے لاہور ہائی کورٹ سے قبل از گرفتاری ضمانت کروالی تھی۔

28 جولائی کو اسلام آباد پولیس نے سول جج کی اہلیہ کے خلاف ملازمہ پر تشدد کے کیس میں نئی دفعہ 328-اے (بچے پر ظلم) کا اضافہ کیا۔

30 جولائی کو بچی کی طبیعت مزید بگڑ گئی جس پر اسے لاہور جنرل ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں منتقل کیا گیا، ایک ہفتے بعد ان کی طبیعت میں بہتری آنے لگی۔

یکم اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے سول جج کی اہلیہ سومیا عاصم کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کی عبوری ضمانت میں 7 اگست تک توسیع کی تھی۔

7 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے ملزمہ سومیا عاصم کی ضمانت خارج کرکے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیا،جس کے بعد اسلام آباد پولیس نے ملزمہ کو احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا تھا۔

’خدارا بچوں پر ظلم کرنا بند کریں‘، سجل علی اور نادیہ جمیل کا بچوں سے ملازمت نہ کروانے کا مطالبہ

پاکستانی اداکاروں سے بھیک مانگنی پڑی کہ وہ بچوں پر تشدد کے خلاف ویڈیو ریکارڈ کرکے بھیجیں، نادیہ جمیل

مریم نواز کی تشدد کا شکار ہونے والی گھریلو ملازمہ رضوانہ کی عیادت