پاکستان

ملازمہ تشدد کیس: سول جج کی اہلیہ سومیا عاصم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد

میرا اتنا برا میڈیا ٹرائل کیا جا رہے، میرا اس کیس میں کوئی ایسا کوئی کردار نہیں جیسا پیش کیا جارہا ہے، ملزمہ سومیا عاصم
|

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے 13 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں سول جج کی اہلیہ سومیا عاصم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے 14 روز کے لیے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں کم عمر ملازمہ رضوانہ تشدد کیس میں ملزمہ سومیا عاصم کو ڈیوٹی جج شائستہ خان کنڈی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

پولیس نے ملزمہ سومیا عاصم کو کچہری میں پیش کیا، جج شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ تفتیشی افسر کو کیوں ریمانڈ چاہیے؟

جس پر تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ تفتیش کرنی ہے، کل ہی گرفتاری ہوئی ہے، اسکائی وے سے ویڈیوز بھی لینی ہیں۔

جج شائستہ کنڈی نے پوچھا کہ قانون کے مطابق خاتون کا جسمانی ریمانڈ کن سیکشن پر ہو سکتا ہے، جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ گھناؤنے جرم پر جسمانی ریمانڈ لیا جا سکتا ہے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ قانون خاتون ملزم کو صرف 2 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کی اجازت دیتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ صرف اقدام قتل اور قتل کے مقدمات میں قانون خاتون ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی اجازت دیتا ہے۔

جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ہم نے بچی کو دی جانے والی اجرت کے حوالے سے رسیدیں حاصل کرنی ہیں۔

وکیل صفائی نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے خلاف الزام ہے کہ بچی ہمارے پاس ملازمہ تھی، بچی ہمارے پاس ملازمہ تھی ہی نہیں، یہ الزام ہے۔

جج شائستہ خان کنڈی نے کہا کہ آپ نے اگر ویڈیو ہی لینی ہے تو سیف سٹی سے ویڈیو لے لیں، میں آپ کو میڈیا ہائپ کی بنیاد پر تو جسمانی ریمانڈ نہیں دے سکتی۔

اس موقع پر سومیا عاصم روسٹرم پر آگئیں، انہوں نے کہا کہ میں ہر طرح کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہوں، میں ایک ماں ہوں، میرے تین بچے ہیں، اس طرح کا ٹارچر نہ کیا جائے، اس دوران سومیا عاصم آبدیدہ ہوگئیں۔

سومیا عاصم نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے رات ساڑھے گیارہ بجے مجھے بلا کر ذہنی اذیت دی، تفتیشی افسر بھی ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اس پر تفتیشی افسر نے وضاحت دی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے میڈیم۔

جج شائستہ خان کنڈی نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں آپ 2 دن کا ریمانڈ کیوں مانگ رہے ہیں؟ جس پر پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ مزید تفتیش کے لیے ریمانڈ حاصل کر رہے ہیں۔

جج نے پوچھا کہ آپ نے کل سے اب تک کیا کیا ہے؟

پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے تفتیش میں کافی شواہد حاصل کرلیے ہیں، جس پر جج شائشہ خان کنڈی نے کہا کہ آپ خود ہی تسلیم کر رہے ہیں کہ کافی شواہد حاصل ہو چکے، اب ریمانڈ کیوں چاہیے؟

پراسیکیوٹر نے قانون کے مطابق ریمانڈ سے متعلق فیصلہ کرنے کی استدعا کردی۔

پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ قانون جو کہتا ہے اسی کے مطابق فیصلے پر راضی ہیں۔

سومیا عاصم نے روسٹرم پر کھڑے ہو کر بتایا کہ میرا اتنا برا میڈیا ٹرائل کیا جا رہے، دل کرتا ہے خودکشی کرلوں، میرا اس کیس میں کوئی ایسا کوئی کردار نہیں جیسا پیش کیا جارہا ہے۔

ملزمہ کے وکیل نے عدالت سے درخواست کی کہ میڈیا کو ملزمہ کی ویڈیو بنانے سے منع کیا جائے، جس پر جج شائستہ کنڈی نے کہا کہ آپ نے مکمل پردہ کیا ہوا ہے، ماسک پہن رکھا ہے، ویڈیو میں آپ کا چہرہ تو نہیں آسکتا۔

ملزمہ سومیا عاصم نے استدعا کی کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں اپنی فیملی سے مل لوں۔

عدالت نے ملزمہ سومیا عاصم کو 10 منٹ کے لیے فیملی سے ملاقات کی اجازت دے دی۔

عدالت نے ملزمہ سومیا عاصم کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا۔

بعد ازاں جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے فیصلہ سناتے ہوئے پراسیکیوشن کی سومیا عاصم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی اور انہیں 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

عدالت نے 22 اگست کو ملزمہ سومیا عاصم کو دوبارہ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔

گھریلو ملازمہ تشدد کیس

25 جولائی کو سرگودھا سے تعلق رکھنے والی 13 سالہ گھریلو ملازمہ کے ساتھ بدترین تشدد کا واقعہ رپورٹ ہوا تھا، اسلام آباد پولیس نے سول جج کی اہلیہ کے خلاف گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کا مقدمہ درج کیا تھا اور کہا تھا کہ ملزمہ کی گرفتاری کے لیے کوشش کی جا رہی ہے، مزید کہا کہ مقدمے کی تفتیش میرٹ پر کی جائے گی، تمام تر قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔

26 جولائی کو پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ 13 سالہ گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد میں ملوث جج اور ان کی اہلیہ روپوش ہوگئے جس کی وجہ کیس کی تحقیقات میں تعطل پیدا ہوگیا ہے۔

28 جولائی کو وزیر اعظم کی معاون خصوصی شزا فاطمہ خواجہ نے سول جج اسلام آباد کی گھریلو نوعمر ملازمہ پر تشدد کے کیس میں جج کی اہلیہ کو لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابھی ہم نے بچی سے بھی ملاقات کی ہے، بچی کی حالت اب بھی بہتر نہیں ہے، اور آکسیجن سپورٹ پر گئی ہیں۔

28 جولائی کو اسلام آباد پولیس نے سول جج کی اہلیہ کے خلاف نوعمر گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں نئی دفعہ 328-اے (بچے پر ظلم) کا اضافہ کر دیا گیا۔

30 جولائی کو بچی کی طبیعت مزید بگڑ گئی جس پر اسے لاہور جنرل ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں منتقل کر دیا گیا جہاں اس کے لیے آئندہ 48 گھنٹے انتہائی اہم قرار دیے گئے۔

یکم اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے سول جج کی اہلیہ و مرکزی ملزمہ سومیا عاصم کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کی عبوری ضمانت میں 7 اگست تک توسیع کردی تھی۔

7 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے 13 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں سول جج کی اہلیہ سومیا عاصم کی ضمانت خارج کرکے گرفتار کرنے کا حکم دے دیا تھا جس کے بعد اسلام آباد پولیس نے ملزمہ کو احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا تھا۔

یوکرین: رہائشی عمارت پر روس کا میزائل حملہ، 7 افراد ہلاک

سندھ اسمبلی: لوکل گورنمنٹ ٹیکس، لیویز کی عدم ادائیگی کےخلاف کونسلز انسپکٹرز کو بااختیار بنانے کا بل منظور

توشہ خانہ کیس: چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کےخلاف اپیل کل سماعت کیلئے مقرر