پاکستان

وفاقی وزرا نے انتخابات میں تاخیر کا امکان ظاہر کردیا

2017 کی مردم شماری کے نتائج پر دو انتخابات نہیں کرائے جاسکتے، پچھلی مردم شماری کو عارضی طور پر منظور کیا گیا تھا، رانا ثناللہ

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور وزیر دفاع خواجہ آصف دونوں نے کہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کا امکان ہے۔

حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 9 اگست کو اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی، اس صورت میں قومی اسمبلی اپنی مدت کی تکمیل سے قبل تحلیل ہو جائے گی، اس کا مطلب ہے کہ عام انتخابات اس کی تحلیل کے 90 روز کے اندر ہونے ہیں۔

آئین میں کہا گیا ہے کہ اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کرتی ہے تو انتخابات 60 روز میں کرائے جائیں گے، لیکن اس کے قبل از وقت تحلیل ہونے کی صورت میں یہ مدت بڑھ کر 90 روز تک ہو جاتی ہے۔

گزشتہ ہفتے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے ساتویں مردم شماری کی متفقہ طور پر منظوری دے دی تھی، جس کے بعد رواں برس شیڈول انتخابات کے 6 ماہ تک التوا کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے رواں ہفتے کے اوائل میں دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے، جب کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پہلے ہی آبادی کے نئے اعداد و شمار کی بنیاد پر انتخابات کرانے سے معذوری کا اظہار کر چکا ہے کیونکہ اسے نئی آبادی کی بنیاد پر انتخابی حلقوں کی از سر نو حد بندی کرنی ہوگی۔

الیکشن کمیشن نے ماضی قریب میں اعلان کیا تھا کہ نئی حلقہ بندیوں پر انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہیں، اس مشق کے لیے چار سے چھ ماہ درکار ہوں گے، امید ہے کہ الیکشن کمیشن آج حلقوں کی نئی حد بندی کے لیے ٹائم فریم کا فیصلہ کرے گا۔

گزشتہ رات نجی نیوز چینل جیو کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ میں مستقبل کی پیش گوئی نہیں کرسکتا لیکن اگر 90 روز 120 دنوں میں بدل گئے تو اس کے لیے واضح آئینی دلیل موجود ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ آئین کے تحت 2017 کی مردم شماری کے نتائج پر دو انتخابات نہیں کرائے جا سکتے، انہوں نے مزید کہا کہ پچھلی مردم شماری کو عارضی طور پر منظور کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق مردم شماری کی منظوری دے دی گئی ہے تو اس کے بعد حد بندی ضروری ہے، لہٰذا اسی بنیاد پر حد بندی کی جانی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ آئینی تقاضے ہیں جن پر آئین کے مطابق عمل ہو رہا ہے، ایسا نہیں ہے کہ 90 دن کی حد بغیر کسی وجہ کے 120 دن ہو گئے ہیں۔

پروگرام اینکر شاہزیب خانزادہ نے پھر نشاندہی کی کہ پہلے وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ نئی مردم شماری پر الیکشن کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اس پر وزیر داخلہ نے جواب دیا کہ آج بھی میں کہتا ہوں کہ اگر قومی اتفاق رائے سے اس مردم شماری کا نوٹی فکیشن جاری نہ کیا جاتا تو 90 روز کے اندر انتخابات ہونے تھے اور وہ موجودہ حد بندیوں پر ہونے تھے۔

رانا ثنا اللہ نے روشنی ڈالی کہ 2017 کی مردم شماری پر صرف کسی ایک جانب سے نہیں بلکہ درجنوں اعتراضات تھے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ تمام متعلقہ جماعتوں کے تحفظات سننے اور دور کرنے کے بعد 2023 کی مردم شماری کو منظور کیا گیا۔

دوسری جانب امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے اینکر بیکی اینڈرسن کو دیے ایک انٹرویو میں وزیر دفاع نے کہا کہ انتخابات نومبر میں ہونے والے ہیں۔

کل نشر ہونے والے اپنے انٹرویو میں انہوں نے نشاندہی کی کہ قومی اسمبلی 9 اگست کی شام تک تحلیل ہوجائے گی، انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے تحت انتخابات 90 روز کے اندر کرائے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا ڈیڈ لائن میں 90 روز ہیں، کچھ شرائط کے تحت اس سے آگے جایا جاسکتا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس انتخابی مسئلہ، مردم شماری یا انتخابی کردار کے مسئلے کی وجہ سے اسے ایک یا دو ماہ کے لیے مؤخر کرنے کا اختیار ہے لیکن اس سے آگے نہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا 2023 کی مردم شماری کی منظوری انتخابات میں تاخیر کا باعث بنے گی تو خواجہ آصف نے کہا کہ میں فی الحال اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا لیکن یہ ایک امکان ہے، میں اسے مسترد نہیں کروں گا۔

اینکر نے نشاندہی کی کہ مردم شماری کی منظوری اسی روز کی گئی جس دن پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو کرپشن کیس میں گرفتار کیا گیا، حیرت ہوگی، اگر دونوں پیشرفت آپس میں جڑی ہوئی ہوئیں۔

وزیر دفاع نے کہا کہ نہیں، وہ بالکل جڑے ہوئے نہیں ہیں، مردم شماری کا تنازع گزشتہ کئی ماہ سے چل رہا تھا اور ہمیں پاکستان کے تمام صوبوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا تھا تاکہ نتائج تمام صوبوں کی طرف سے قبول کیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ تاخیر اسی تنازع کی وجہ سے ہوئی، ورنہ مردم شماری کے نتائج کا عمران خان کی گرفتاری سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔

اپنے انٹرویو کے آخر میں خواجہ آصف نے اس بات کا اعادہ کیا کہ انتخابات نومبر میں ہوں گے، مجھے یقین ہے کہ انتخابات نومبر میں ہوں گے لیکن آپ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تاخیر کا امکان ہے، تو تاخیر کا امکان ہے لیکن تکنیکی بنیادوں پر ایک دو ماہ سے زیادہ نہیں، اور اس میں کوئی غلط مقصد نہیں ہے۔

پاکستان اسٹیل: روشن ماضی سے تاریک حال تک کا سفر

سابق کپتان انضمام الحق قومی کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر مقرر

’وہ ہم سفر تھا‘ گاتے وقت بہت غلطیاں کی تھیں، قرۃالعین بلوچ