نقطہ نظر

پاکستان ریلوے کا پہیہ پٹری پر کب چڑھے گا؟

1960ء کے اوائل میں پاکستان کی زیادہ تر تجارتی نقل و حمل کا 75 فیصد ریلوے کے ذریعے ممکن ہوتا تھا لیکن پھر حکومت کی ترجیحات بدل گئیں اور ریلوے کے نظام سے توجہ ہٹالی گئی۔

نواب شاہ اسٹیشن سے تقریباً 19 کلومیٹر پہلے سرہاری ریلورے اسٹیشن سے راولپنڈی کی جانب سفر شروع کرنے والی ہزارہ ایکسپریس میں سوار کسی بھی مسافر کو علم نہیں تھا کہ اگلے چند منٹوں بعد ہی ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جائے گا اور ہنستے مسکراتے چہرے دیکھنے کی بجائے چیخ و پکار سننے کو ملے گی۔

ہزارہ ایکسپریس کے حادثے میں پلک جھپکتے ہی 30 مسافر لقمہ اجل بن گئے اور 60 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ پاکستان ریلوے کی انتظامیہ کو اچھی طرح علم تھا کہ جس ٹریک پر ٹرین دوڑے گی وہ خستہ حال ہے اور اسی لیے ٹرین کے ڈرائیور کو بتایا گیا تھا کہ اس نے ٹنڈو آدم ریلورے اسٹیشن سے سانگی ریلوے اسٹیشن تک 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلانی ہے اور عینی شاہدین کے مطابق ٹرین تقریباً ایسی رفتار سے چل رہی تھی۔

ضلع نواب شاہ میں صحافتی فرائض سر انجام دینے والے ارشد علی سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی اور مزید بتایا کہ اسی ٹریک پر چند روز قبل علامہ اقبال ایکسپریس کے دو ڈبے پٹری سے اترگئے تھے لیکن خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ارشد علی کا خیال ہے کہ ٹرین کا حادثہ مبینہ طور پر ریلوے حکام کی غفلت کی وجہ سے پیش آیا ہے۔

کراچی سے لاہور جانے والا ٹریک بیشتر مقامات پر خستہ حالی کا شکار ہے۔ تاہم ریلوے حکام کا ماننا ہے کہ حادثہ مبینہ طور پر تخریب کاری کی وجہ سے پیش آیا ہے اور اس معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس حادثے یا اس سے پہلے ہونے والے واقعات کو روکا جاسکتا تھا تو اس کا جواب بالکل ہاں میں موجود ہے۔ 2018ء اور 2019ء کے درمیان پاکستان ریلوے کے بورڈ نے ایک حکمت عملی کی منظوری دی (پاکستان ریلوے اسٹریٹجک پلان) اور اسے باقاعدہ منظوری کے لیے کابینہ کو بھجوا دیا گیا۔ اس منصوبے میں ریلوے ٹریک کی آپ گریڈیشن کے علاوہ دیگر سفارشات پیش کی گئیں۔ لیکن یہ بتانے سے پہلے آپ کو پاکستان ریلوے کے چند بنیادی خودوخال بتانا ضروری ہیں۔

پاکستان ریلورے کی تاریخ

1855ء میں سر ہینری ایڈورڈ نے کراچی سے کوٹری تک ریلوے چلانے کا منصوبہ پیش کیا جس کے لیے 1858ء میں سروے کا آغاز کیا گیا اور 13مئی 1861ء کو کراچی سے کوٹری تک پہلی باقاعدہ عوامی ریل سروس شروع کر دی گئی۔ اس طرح انگریز دور میں ٹرین وسعتیں پکڑتی گئی اور بلآخر 1885ء میں سندھ پنجاب اور دہلی ریلویز کو سیکریٹری آف اسٹیٹ فار انڈیا نے خرید لیا۔ جنوری 1886ء کو برصغیر پاک و ہند میں چلنے والے ریلوے نظام کو اکٹھا کردیا گیا اور نارتھ ویسٹ اسٹیٹ ریلوے کا قیام عمل میں آیا۔

قیام پاکستان کے وقت نارتھ ویسٹ ریلوے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تو بھارت کو 1847 روٹ میل ٹریک ملا جبکہ پاکستان کو 5048 روٹ میل ٹریک ملا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان ریلوے کے زیر انتظام اس وقت جو ٹریک ہے وہ کوہ ہندو کش سے سمندر تک تقریباً انہی راستوں پر قائم ہے جہاں سے الیگزینڈر گزرا تھا۔

پاکستان ریلوے میں اس وقت دو قسم کے گیجز پر ٹرینیں چلتی ہیں جس میں ’براڈ گیج‘ اور ’میٹر گیج‘ شامل ہے۔ ٹرینوں کو اپنے مکمل روٹ میں کم و بیش 13ہزار 959 چھوٹے بڑے پلوں سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ 33 ہزار 389 لیول کراسنگز ہیں اور کم وبیش 3 ہزار 354 ’مینڈ‘ اور ’ان مینڈ‘ کراسنگز موجود ہیں۔ اسی طرح ریلوے کے پاس پونے دو لاکھ ایکڑ کے قریب اراضی بھی موجود ہے۔ ریلوے کے پاس انجن، بوگیاں، آلات اور دیگر اثاثے بھی موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کو چلانےکے لیے وسائل اور حکمت عملی موجود نہیں ہے۔

پاکستان ریلوے کے پاس 1950ء سے 1955ء تک مجموعی طور پر 8 ہزار 560 کلومیٹر روٹ تھا لیکن یہ اب کم ہو کر 7 ہزار 791 کلومیٹر رہ گیا ہے جبکہ 12 ہزار کلومیٹر ٹریک کم ہو کر 11 ہزار 881 کلومیٹر رہ گیا ہے۔ پاکستان ریلوے کے پاس آغاز میں کم و بیش 862 مختلف اقسام کے انجن تھے جو اب کم ہو کر کم و بیش 472 رہ گئے ہیں۔ پاکستان ریلوے کے پاس موجود 16 ہزار 159 گڈز ویگنز میں سے 9 ہزار 832 کے لگ بھگ ناکارہ ہو چکی ہیں۔ اسی طرح ریلوے کے پاس موجود 1 ہزار 822 مسافر کوچز میں سے 606 اپنی معیاد پوری کرچکی ہیں۔

کراچی، لاہور سے پشاور جانے والے روٹ ایم ایل ون کے 2 ہزار 995 کلومیٹر روٹ پر 55 فیصد ٹریک خستہ حال ہے۔ اٹک،کوٹ ادو سے کوٹری تک کے 1254 کلومیٹر ٹریک کا 80 فیصد حصہ اپنی مدت میعاد مکمل کر چکا ہے۔ روہڑی، جیک آباد، کوئٹہ سے تفتان تک 970 کلومیٹر کے ایم ایل تھری ٹریک کا 80 فیصد حصہ اپنی مدت مکمل کر چکا ہے۔ پاکستان ریلوے کے ٹریک پر موجود 13 ہزار 900 چھوٹے بڑے پلوں میں سے کم و بیش 11 ہزار پل سو سال سے زائد پرانے ہوچکے ہیں۔

1950ء سے 1955ء تک پاکستان ریلوے کے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی جبکہ اس وقت ملازمین کی تعداد 65 ہزار سے زائد ہے اور تقریباً ایک لاکھ کے قریب پینشنرز موجود ہیں۔ ریلوے ملازمین کی فلاح کے لیے شادی فنڈ، فئیر ویل فنڈ، فوتگی فنڈ، بینوویلنٹ فنڈز سمیت دیگر مراعات بھی دی جاتی ہیں۔

دستیاب معلومات کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں ریلوے کو چھوٹے بڑے مختلف حادثات کا سامنا رہا ہے جس میں مسافر ٹرینوں کے آپس میں ٹکرانے، مسافر اور مال بردار ٹرین کے ٹکرانے، مسافر ٹرین کے پٹری سے اترنے، مال بردار گاڑی کے پٹری سے اترنے، ریلوے پھاٹک پر ہونے والے حادثات اور آگ لگنے جیسے دیگر واقعات میں 518 افراد زخمی ہوئے جبکہ 409 افراد جان کی بازی ہار گئے۔

حکومتی عدم توجہی

پاکستان ریلوے کی تباہی کی ایک بڑی وجہ وفاقی حکومت کی جانب سے بروقت اور درکار مالی معاونت فراہم نہ کرنا ہے۔ 2011ء سے 2012ء کے درمیان ریلوے نے حکومت سے 21 ارب روپے سے زائد کی رقم مانگی لیکن 85 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ دیگر معلومات بھی موجود ہیں لیکن مختصر کرتے ہوئے آپ کے علم میں لانا چاہتے ہیں کہ 2020ء سے 2021ء کے مالی سال کے دوران حکومت سے 28 ارب 44 کروڑ روپے سے زائد کی رقم کا مطالبہ کیا گیا لیکن ریلوے کو 17 ارب روپے دیے گئے۔ اسی طرح مالی سال 2021ء سے 2022ء میں 34 ارب روپے کا تقاضا کیا گیا تھا لیکن حکومت کی جانب سے مکمل فنڈز فراہم نہیں کیے گئے۔

وزارت ریلوے کے عہدے دار سے معلوم ہوا کہ 2018ء میں جو ریلوے اسٹریٹجک پلان ریلوے بورڈ کی جانب سے منظور کیا گیا اس میں نجی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ریلوے کے بڑے ٹریکس کی اپ گریڈیشن کا جامع پلان شامل تھا۔ حکومت کے پاکستان وژن 2025ء کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ حکمت عملی بھی مرتب کی گئی کہ پاک-چین اقتصادی راہ داری میں ہونے والی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ریلوے کو بھی خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔

اس حکمت عملی میں سفارش کی گئی کہ موجودہ مسافر ٹرینوں کی تعداد کو مزید بڑھانے کی بجائے فریٹ ٹرینز یعنی سامان لے جانے والی ٹرینوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ مین لائن سیکشن کو دوہرا کیا جائے اور ٹرینوں کو 160 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے کے قابل بنایا جائے۔ ملک بھر میں چلنے والی ٹرانسپورٹ میں ریلوے کے سسٹم کو بہتر کرکے اس کے شئیر کو 4 فیصد سے 20 فیصد تک لے جایا جائے اور زیادہ لمبے روٹس پر مسافروں کو ٹرین استعمال کرنے کی ترغیب دی جائے۔ اس اقدام سے ایندھن کی بچت بھی ہوتی اور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے میں مدد بھی ملتی۔

1960ء کے اوائل میں پاکستان کی زیادہ تر تجارتی نقل و حمل کا 75 فیصد ریلوے کے ذریعے ممکن ہوتا تھا لیکن پھر 1980ء سے 1990ء کے درمیان حکومت کی ترجیحات بدل گئیں اور ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے کی بجائے اس سے توجہ ہٹالی گئی اور سڑکوں کا جال بچھانے کی حکمت عملی زور پکڑنے لگی۔ پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ پاکستان ریلوے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے نظام مزید بہتر ہوگا اور مسافر ٹرینوں کے ساتھ روزانہ 50 فریٹ ٹرین ان ٹریکس پر چل سکیں گی لیکن اس پر پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے ٹریک جس حالت میں تھا ویسے ہی ہے۔

آج پاکستان ریلوے میں کم و بیش 50 کے قریب مسافر ٹرینیں چل رہی ہیں اور ان میں سے صرف ایک ٹرین قراقرم ایکسپریس اپنے خرچے کا 87 فیصد ریونیو حاصل کر رہی ہے جبکہ باقی تمام ٹرینیں زیادہ سے زیادہ 60 فیصد کمائی کر رہی ہیں جس کا سارا بوجھ حکومتی خزانے کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں اور بھی بے شمار تجاویز دی گئیں لیکن اس پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

مزید معلوم ہوا کہ 14 جون 2021ء کو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو ایک بریفنگ میں بتایا گیا کہ ایم ایل ون ٹریک پر 2015ء سے کام شروع نہیں ہو سکا۔ کراچی سے پشاور تک مرکزی ٹریک کا 35 سے 85 فیصد حصہ کمزور ہورہا ہے اور اس کے لیے فوری طور پر مرمت ضروری ہے۔ ہماری چھان بین کے دوران یہ بات علم میں آئی کہ ایم ایل ون کے پہلے فیز میں کراچی سے ملتان تک کے ٹریک کی اپ گریڈیشن شامل نہیں ہے۔

اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ طے پایا کہ 447 کلومیٹر کے اس ٹریک کے لیے قازقستان کی حکومت سے اعلیٰ سطح کے مذاکرات کیے جائیں۔ دسمبر 2021ء میں حکومت پاکستان کو آگاہ کیا گیا کہ فوری نوعیت کے اس عوامی منصوبے کے لیے قازقستان حکومت 350 ملین ڈالر کا قرضہ انتہائی کم شرح سود پردینے کو تیار ہے۔ بدقسمتی سے اس پر بھی اب تک عمل درآمد نہیں ہوسکا کیونکہ اس معاملے میں پاکستان اور چین دونوں ممالک کے درمیان ہونے والا معاہدہ بھی ایک رکاوٹ ہوسکتا ہے جس کے لیے چینی حکومت کی رضامندی بھی ضروری تھی۔

پاکستان ریلوے کا بھارت سے موازنہ

چند برس قبل حکومتی سطح پر دی جانے والی بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان ریلوے کے ٹریک کی لمبائی 11 ہزار 881 کلومیٹر ہے جبکہ بھارت میں ٹریک کی لمبائی 1لاکھ 19ہزار 630 کلومیٹر تک پھیلی ہے۔ پاکستان میں ریل کا کل روٹ 7 ہزار 791 کلومیٹر ہے اور بھارت میں یہ 65 ہزار436 کلومیٹر ہے۔ پاکستان کے پاس 460 لوکوموٹیو ہیں جبکہ بھارت کے پاس برقی توانائی اور ڈیزل سے چلنے والے 11 ہزار کے لگ بھگ لوکوموٹیو موجود ہیں۔ پاکستان کے پاس ایک ہزار 484 اور بھارت کے پاس 64 ہزار کے قریب مسافر کوچز موجودہیں۔

پاکستان ریلوے کے کم و بیش 512 ریلوے اسٹینشز ہیں جبکہ ان کی تعداد بھارت میں 7589 کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان کے پاس مال بردار ڈبے 15 ہزار سے زائد جبکہ بھارت کے پاس 2 لاکھ 44 ہزار سے زائد ہیں۔ اسی طرح دنوں ممالک کے درمیان ریلوے کی آمدنی میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے تاہم مذکورہ بالا اعداو شمار میں یقیناً اس وقت تبدیلی آچکی ہوگی۔

دنیا میں چلنے والی بہت سی ٹرینیں 300 کلومیٹر فی گھنٹہ یا اس سے زائد رفتار تک پہنچ سکتی ہیں۔ ایسی ہی ایک ٹرین جو چین میں ’شہنگائی میگلیو‘ کے نام سے چلتی ہے اس کی رفتار 460 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہے جبکہ اوسط رفتار 251 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ جرمنی میں چلنے والی ٹرین کی رفتار 350 کلومیٹر فی گھنٹہ تک جاسکتی ہے۔

فرانس، جاپان، مراکش، اسپین، کوریا اور اٹلی میں بھی ایسی ٹرینیں موجود ہیں جو 300 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار پر چل سکتی ہیں جبکہ ہمارے ہمسائے ملک بھارت میں چلنے والی ٹرین 180 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ سکتی ہے۔ پاکستان کی بات کی جائے تو ٹرین زیادہ سے زیادہ 110 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں۔

پاکستان ریلوے سے عوامی توقعات

لاہور سے خان پور کالج میں پڑھانے کی غرض سے جانے والے محمد عرفان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 10 برس سے وہ لاہور سے کراچی جانے والی ٹرین میں سفر کر رہے ہیں اس دوران ٹریک پر بہت سے ایسے مقام آتے ہیں جہاں ٹرین ادھر ادھر بہت زیادہ ہلتی ہے۔ جہاں وہ مسافروں اور ٹرین کی حفاظت بھی کم محسوس کرتے ہیں۔ ٹکٹ کا آن لائن سسٹم اور اسٹاف کا رویہ بہتر ہوا ہے لیکن ٹرینوں کے اوقات میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ عرفان کی خواہش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اورنج لائن جیسی ٹرین اس ٹریک پر چلتی دیکھیں اور اس پر سفر بھی کریں۔

محمد حنیف 1961ء سے لاہور ریلوے اسٹیشن پر قلی کے طور پر کام کر رہے ہیں ان کے بقول وہ یہ کام مجبوری کے تحت کر رہے ہیں۔ بہت سی حکومتیں اور وزیر بدلے لیکن نہیں بدلا تو ریلوے کا نظام، جہاں آج بھی ٹرینیں لیٹ آتی ہیں، کرایوں میں اضافہ کیا جاتا ہے لیکن اس تناسب سے مسافروں کو سہولیات فراہم نہیں کی جارہیں۔ وزیر دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد کم ہی کرتے ہیں۔ جب تک ریلوے کے افسران اور دیگر ملازمین مکمل ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام نہیں دیں گے یہ نظام ایسے ہی چلتا رہے گا۔

وفاقی وزیرِ ریلوے کیا رائے رکھتے ہیں؟

خواجہ سعد رفیق کے بقول 2013ء میں ریلوے کی سالانہ آمدن 18 ارب روپے تھی جسے 5 برس میں 50 ارب روپے پر لے جایا گیا۔ پھر ایم ایل ون کی تعمیر کا خواب ہو، پیسنجر اور فریٹ آپریشنز میں شاندار اضافہ ہو یا ریلوے کے وسائل میں اضافہ، خیال تھا کہ اگلے 5 برس میں اس آمدن کو با آسانی دگنا کر لیا جائے گا۔ جدید ترین امریکی لوکوموٹیوز ریلوے کے ’کماؤ پوت‘ بن رہے تھے۔ ملک میں انگریز دور کے بعد پہلی مرتبہ نئے ریلوے اسٹیشن ہی تعمیر نہیں ہو رہے تھے بلکہ سی پیک کے ساتھ ساتھ کراچی سے پشاور تک ریلوے لائن کی عالمی تقاضوں کے عین مطابق اپ گریڈیشن کرتے ہوئے ایم ایل ون پروجیکٹ کی بنیاد رکھی جاچکی تھی۔

وزیر ریلوے کہتے ہیں کہ ’مگر پھر ایک سیاہ دور آگیا۔ بحالی، تعمیر، ترقی اور جدت کا سورج غروب ہو گیا۔ پھر آئینی، جمہوری تبدیلی کے بعد گزشتہ برس دم توڑتی ریلوے کو دوبارہ سنبھال لیا گیا۔ گزشتہ برس کے تباہ کن سیلاب میں ریلوے کا 400 کلومیٹر ٹریک پانی میں ڈوب گیا، ریلوے کو 500 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا، اس کے باوجود وفاقی حکومت سمیت کسی بھی بیرونی مدد یا فنڈنگ کے بغیر مین لائن کو صرف 41 دنوں میں بحال کر دیا گیا‘۔

خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ ’نقصانات کے باوجود پاکستان ریلویز نے گزشتہ مالی سال میں 63 ارب 27 کروڑ سے زائد کی آمدن حاصل کی۔ یہ پاکستان ریلوے کی تاریخ کی ایک مالی سال میں ریکارڈ آمدن ہے۔ یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر سیلاب نہ آتا تو ریلوے باآسانی 75 ارب کے لگ بھگ کی آمدن تک پہنچ سکتی تھی۔ اگر بیچ میں 4 سیاہ برس نہ ہوتے تو ریلوے کی آمدن ایک کھرب سالانہ کے ہدف تک پہنچ رہی ہوتی‘۔

وفاقی وزیر ریلوے نے کہا کہ ’4 برس کے تعطل کے بعد نومبر 2022ء میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے دورہ چین کے نتیجے میں کچھ پیش رفت ہوئی۔ اس منصوبے کا دائرہ کار پشاور تا کراچی ڈبل لائن ہے، اس کی لمبائی 1733 کلومیٹر ہے اور رفتار 140 کلومیٹر فی گھنٹہ مقرر کی گئی ہے۔ اس کی لائن صلاحیت پشاور اور کراچی کے درمیان اپ اور ڈاؤن 100 ٹرینوں تک بڑھائی جاسکے گی۔ ہمیں افسوس ہے کہ اس مجرمانہ تاخیر نے جہاں منصوبے کی لاگت 10 ارب ڈالر تک پہنچا دی وہاں آج بھی ہم کم و بیش وہیں کھڑے ہیں جہاں 2018ء میں تھے‘۔

خواجہ سعد رفیق کے مطابق ’اب حکومت کی مسلسل کوششوں سے منصوبے کی مالیت 10 ارب ڈالر سے 6 ارب 60 کروڑ ڈالر کی گئی ہے۔ پاکستان، افغانستان، ازبکستان ریلوے پروجیکٹ ان شااللہ پورے علاقے کے لیے خوش حالی اور انقلاب کی بنیاد بنے گا۔ پاکستان کو وسطی ایشیا، روس اور بالٹک ریاستوں سے ملانے کے لیے پروٹوکول اور روڈ میپ پر 18 جولائی کو دستخط ہو چکے ہیں۔ اس منصوبے میں کوہاٹ سے خرلاچی 191 کلومیٹر اور خرلاچی سے مزار شریف 674 کلومیٹر ٹریک بنے گا جبکہ مزار شریف سے ترمذ تک ٹریک پہلے ہی بن چکا ہے‘۔

وزیر ریلوے نے بتایا کہ ’اگلے تین ماہ میں پاکستان ریلویز پشاور سے کراچی کے درمیان مشہور ٹرین عوام ایکسپریس، لاہور سے کراچی کے درمیان شاہ حسین ایکسپریس اور لاہور، فیصل آباد، کوئٹہ کے درمیان اکبر بگٹی ایکسپریس کو بحال کر رہا ہے۔ ریلوے کے فلیٹ میں 46 نئی مسافر کوچز اور 200 نئی فریٹ ویگنوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ 9 ارب روپے کا 230 پیسنجر کوچز اور 820 فریٹ ویگنز کا ایسا منصوبہ ہے جس میں مکمل طور پر ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کی جا رہی ہے یعنی اب ہمیں رولنگ اسٹاک اپنا قیمتی زر مبادلہ خرچ کر کے خریدنا نہیں پڑے گا بلکہ ہم خود تیار کریں گے۔ آئندہ الیکشن میں اگر حکومت اور وزارت ملی تو اس مشن کو مزید آگے بڑھانے کے خواہش مند ہیں‘۔


ہیڈر: پاکستان ریلوے فیس بک پیج

علی وقار

لکھاری ڈان نیوز سے وابستہ ہیں۔ سیاست، سماجی مسائل اور دیگر اہم امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔