پاکستان

پیپلز پارٹی نے نئی حلقہ بندیوں پر انتخابات کرانے کو التوا کی سازش قرار دے دیا

مردم شماری کا معاملہ متنازع ہے، اسے انتخابات سے جوڑنے سے پنڈورا باکس کھل جائے گا، انتخابات میں تاخیر نہیں چاہتے، وقت پر ہونے چاہئیں، سینیٹر شیری رحمٰن

انتخابات میں ممکنہ تاخیر اور مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں 2 نگران وزرائے اعلیٰ کی شرکت پر تنازع کی گونج گزشتہ روز سینیٹ میں سنائی دی جہاں حکومت کی اہم اتحادی جماعت پیپلزپارٹی نے انتخابات میں کسی صورت التوا کی مخالفت کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پی پی پی کے سینیٹر رضا ربانی نے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں پر انتخابات کرانے کے خیال کی مخالفت کی، ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوا تو انتخابات کئی ماہ تک ملتوی ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ نگران وزیراعلیٰ کا صرف ایک محدود کردار ہوتا ہے، وہ مردم شماری کی متنازع مشق پر فیصلے نہیں لے سکتے، انہوں نے مزید کہا کہ تازہ مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر انتخابات کرانے کے بہانے انتخابات میں تاخیر کی حمایت نہیں کی جائے گی۔

الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 230 کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون نے واضح طور پر نگران عہدیداران کو مشترکہ مفادات کونسل میں بیٹھ کر مردم شماری کے فیصلے کرنے سے روک دیا ہے، قانون کہتا ہے کہ کوئی بھی نگران حکومت ایسا کوئی فیصلہ نہیں لے گی اور نہ ہی کوئی ایسی پالیسی بنائے گی جو مستقبل کی منتخب حکومت کے اختیارات کے استعمال کو متاثر کر سکتی ہو یا اس پر قدغن لگا سکتی ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ نگران حکومت کا واحد کام آزاد اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانا ہے، مردم شماری پہلے ہی متنازع ہے اور اگر نگران حکومت اس حوالے سے فیصلے کرے تو یہ مزید متنازع ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ پہلے ہی مردم شماری پر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکا ہے اور وزیراعلیٰ سندھ نے وفاقی حکومت کو خط بھی لکھا ہے۔

وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن نے بھی کہا کہ مردم شماری کا معاملہ متنازع ہے اور اسے انتخابات سے جوڑنے سے ایک پنڈورا باکس کھل جائے گا، ہم نہیں چاہتے کہ انتخابات میں تاخیر ہو، انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں۔

ردعمل میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ تمام معاملات سی سی آئی کے اجلاس میں زیرِبحث آئیں گے اور وزیراعلیٰ سندھ بھی اس میں شریک ہوں گے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ 2018 کے انتخابات سے قبل آئین کے آرٹیکل 51 میں آئینی ترمیم کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ انتخابات 2017 کی مردم شماری کے عارضی نتائج کی بنیاد پر کرائے جائیں گے، اس ترمیم سے پہلے تمام پارلیمانی جماعتیں اس بات پر متفق ہوگئی تھیں کہ اگلے انتخابات ڈیجیٹل مردم شماری کی بنیاد پر کرائے جائیں گے۔

’اندھی قانون سازی‘

قبل ازیں سینیٹر رضا ربانی نے حکومت کو ’اندھی قانون سازی‘ سے گریز کرنے کا مشورہ دیا اور مطالبہ کیا کہ بل متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھیجے جائیں۔

تاہم اعظم نذیر تارڑ نے اس تاثر کی تردید کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ یہ بل 4 ماہ سے قومی اسمبلی کی کمیٹیوں کے سامنے زیر التوا ہیں، اب انہیں ایوان کے سامنے رکھا گیا ہے کیونکہ حکومت کی مدت ختم ہونے والی ہے۔

تاہم حزب اختلاف کے اراکین نے ایوان سے واک آؤٹ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت قومی اسمبلی کے پاس پہلے سے منظور شدہ بلوں پر بحث کیے بغیر قانون سازی کو بلڈوز کر رہی ہے۔

ایوان سے نکلنے سے پہلے پی ٹی آئی کے محسن عزیز نے یہ کہہ کر طنز کیا کہ حکومت کو چاہیے کہ ایک ایک کر کے بل پیش کرنے کے بجائے تمام بلوں کو یک مشت پاس کروالے۔

اراکین کے واک آؤٹ کے فوراً بعد پی ٹی آئی کے سینیٹر دوست محمد خان نے کورم کی نشاندہی کی اور ایوان میں کورم نہ ہونے کی وجہ سے 5 منٹ تک گھنٹیاں بجائی گئیں۔ تاہم ایوان میں مطلوبہ کورم سے کم صرف 23 ارکان موجود ہونے کی وجہ سے ایوان کی کارروائی 10 منٹ کے لیے ملتوی کرنا پڑی لیکن جلد ہی کورم پورا ہونے کے بعد دوبارہ کارروائی شروع کردی گئی تھی۔

قبل ازیں چیئرمین سینیٹ نے ’متنازع‘ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) بل کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا کیونکہ اس بل کی اپوزیشن بینچوں کے علاوہ حکومتی بینچوں سے بھی ایک رکن نے شدید مخالفت کی۔

اس سے قبل ایوان میں 14 بلوں کو منظور کیا گیا تھا، سینیٹ اراکین نے حکومت کی مدت کے اختتام پر عجلت میں کی جانے والی قانون سازی پر سوالات اٹھائے تھے۔

نگران وزیراعظم کیلئے مشاورت جاری، اتحادی جماعتوں نے نام تجویز کردیے

’بگ باس‘ میں کام کرنے کی آفر ہوئی، ڈر گئی تھی اس لیے منع کردیا، اداکارہ میرا

بھارت: نئی دہلی کے مضافات میں مذہبی فسادات کے بعد مساجد بند