نگران وزیراعظم کیلئے مشاورت جاری، اتحادی جماعتوں نے نام تجویز کردیے
قومی اسمبلی کی تحلیل کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے دی گئی تاریخ میں صرف 5 روز باقی رہ گئے ہیں، جس کے پیش نظر حکمران اتحاد پی ڈی ایم نے نگران وزیر اعظم کے لیے باہمی طور پر متفقہ امیدوار کے تقرر کے حوالے سے مشاورت کا عمل تیز کر دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے لیے نگران وزیراعظم کا انتخاب ایک چیلنج بن چکا ہے، حکمران اتحاد میں شامل تمام 8 اتحادیوں کے ساتھ شہباز شریف کی ملاقات کے دوران گفتگو کا مرکز یہی سوال رہا کہ نگران وزیراعظم کون ہوگا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز 3 نکاتی ایجنڈے پر اپنے اتحادیوں کے ورچوئل اجلاس کی صدارت کی، ان 3 نکات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل، نگران وزیر اعظم کا انتخاب اور 2023 کی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات شامل تھے، کچھ اتحادی جماعتوں نے نگران وزیر اعظم کے لیے نام جمع کرانے کے لیے وقت مانگا تاہم انہوں نے 9 اگست کو اسمبلیاں تحلیل کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔
اجلاس میں وزیر خارجہ و چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمٰن، ایم کیو ایم (پاکستان) کے کنوینر خالد مقبول صدیقی، بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور اسلم بھوتانی نے شرکت کی۔
وزیر اعظم کے لیے یہ ایک مشکل چیلنج ہوگا کیونکہ اتحادی جماعتوں نے نگران وزیراعظم کے عہدے کے لیے اپنے پسندیدہ امیدواروں کے نام جمع کرادیے ہیں جسے 90 روز کے لیے تعینات کیا جائے گا۔
پیپلزپارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی پہلے ہی وزیراعظم کو 3 نام دے چکی ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرکزی اتحادی جماعتوں یعنی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اتفاق رائے ہوچکا ہے کہ نگران وزیراعظم کون ہوگا لیکن انہوں نے جان بوجھ کر اس پر خاموشی اختیار کررکھی ہے، تاہم ذرائع نے بتایا کہ ایم کیو ایم (پاکستان)، جے یو آئی (ف) اور بی این پی کی جانب سے ابھی تک نگران وزیراعظم کے لیے مجوزہ نام پیش نہیں کیے گئے ہیں۔
حکمران اتحاد میں شامل 2 آزاد اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور اسلم بھوتانی بھی نگران وزیراعظم کے لیے نام تجویز کرچکے ہیں، محسن داوڑ نے 2 اور اسلم بھوتانی نے ایک نام تجویز کیا ہے۔
توقع ہے کہ تمام اتحادی جماعتیں آج (ہفتہ) تک نگران وزیراعظم کے لیے اپنے نام جمع کرادیں گی اور پھر وزیراعظم شہباز شریف لندن میں اپنے بڑے بھائی اور سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف کو ان ناموں سے آگاہ کریں گے۔
ذرائع کے مطابق نواز شریف 3 نام فائنل کریں گے جنہیں وزیراعظم شہباز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجا ریاض احمد کے ساتھ شیئر کریں گے، غالب امکان ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے پیش کردہ 3 ناموں میں سے کسی ایک پر راجا ریاض متفق ہو جائیں گے۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے بعد اپوزیشن لیڈر نے صحافیوں کو بتایا کہ اسمبلیوں کی تحلیل سے ایک روز قبل 8 اگست کو مشاورت کے لیے وزیراعظم سے ان کی ملاقات متوقع ہے۔
شریک چیئرمین پیپلز پارٹی آصف علی زرداری بھی آج (ہفتے) کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں جہاں وہ پارٹی اجلاس کی صدارت کریں گے جس میں نگران وزیر اعظم کے لیے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے ناموں کی نقاب کشائی کی جائے گی۔
قبل ازیں وزیراعظم سے پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے ملاقات کی اور نگران سیٹ اپ پر تبادلہ خیال کیا، اپنی پارٹی کی جانب سے وہ پہلے ہی کسی بھی ٹیکنوکریٹ یا اس وقت سیاست میں سرگرم کسی بھی شخص کے بطور نگران وزیراعظم تقرر کی تجویز مسترد کرچکے ہیں۔
امیدواروں کی طویل فہرست
نگراں وزیراعظم کے لیے پہلے ہی کئی ممکنہ نام میڈیا میں زیرگردش ہیں، ان ناموں میں سیاستدان اور ٹیکنوکریٹس شامل ہیں۔
ان ناموں میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، سابق وزیر اعظم اور رہنما مسلم لیگ (ن) شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، وزیر اعظم کے سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد، سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی، اقوام متحدہ میں مستقل نمائندے عبداللہ حسین ہارون، پیر پگارا صبغت اللہ شاہ راشدی اور سابق گورنر پنجاب اور رہنما پیپلز پارٹی مخدوم احمد محمود وغیرہ شامل ہیں۔
تاہم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ وہ نگران وزیر اعظم کے لیے اپنا نام تجویز کیے جانے کے بارے میں لاعلم ہیں، گزشتہ روز پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کو ’سیاسی معیشت‘ کا ماہر ہونا چاہیے۔
وفاقی حکومت نے پہلے ہی پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعے انتہائی عجلت میں نگران حکومت کے دائرہ کار کو ایسے فیصلے کرنے کے لیے بڑھا دیا ہے جو روزمرہ کے معاملات سے بالاتر ہوں گے۔
نئے قانون کے تحت نگران سیٹ اپ موجودہ دو طرفہ یا کثیر الجہتی معاہدوں یا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی ایکٹ 2017، انٹر گورنمنٹل کمرشل ٹرانزیکشنز ایکٹ 2022 اور نجکاری کمیشن آرڈیننس 2000 کے تحت شروع کیے گئے منصوبوں پر فیصلے لے سکتا ہے۔