پاکستان

نیب 620 افراد کو دیے گئے قرض کی تحقیقات کی قیادت کرے، چیئرمین پی اے سی

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پی ٹی آئی دورِ حکومت میں دیے گئے 3 ارب ڈالر قرض کی تحقیقات میں تاخیر پر ایف آئی اے، نیب اور آڈیٹر جنرل پر برہمی کا اظہار کیا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے قومی احتساب بیورو (نیب)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان پر پی ٹی آئی دورِ حکومت میں کووڈ-19 وبا کے دوران تقریباً 620 افراد کو دیے گئے 3 ارب ڈالر قرض کی تحقیقات میں تاخیر پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اظہار برہمی کے بعد معاملے پر انکوائری مکمل کیے جانے کے ارادے کے ساتھ پی اے سی کے چیئرمین ایم این اے نور عالم خان نے نیب کو ہدایت کی کہ وہ معاملے کی تحقیقات کی قیادت کرے اور فائدہ اٹھانے والے افراد اور ان بینکس کی تفصیلات جمع کرائے جن کے ذریعے 4 روز کے اندر 3 ارب ڈالر کا قرض دیا گیا۔

جولائی کے پہلے ہفتے میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ایف آئی اے، اے جی پی، نیب اور ملٹری انٹیلی جنس کو حکم دیا تھا کہ وہ دیے گئے قرض کے معاملے کی مشترکہ تحقیقات کریں، جولائی میں کمیٹی نے اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست طلب کی تھی۔

اجلاس کے دوران ایم این اے نور عالم خان نے حیرت کا اظہار کیا کہ اربوں ڈالر صرف چند صنعتکاروں میں کیوں تقسیم کیے گئے، یہ فنڈز کسانوں، صحافیوں اور سرکاری ملازمین میں تقسیم کیوں نہیں کیے گئے۔

پی اے سی کے اراکین نے ان 600 سے زائد کاروباری شخصیات کی فہرست دینے کا مطالبہ کیا جنہیں کمرشل بینکوں کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران کووڈ-19 وبا کے دوران 10 برسوں کے لیے صفر شرح سود پر تقریباً 3 ارب ڈالر قرض دیا گیا۔

پی اے سی چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست فراہم کی جائے اور اسے منظر عام پر لایا جائے، یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو تفصیلات معلوم ہوں کہ کیا فنڈز کا استعمال ہوائی جہاز، کاروں کی خریداری کے لیے کیا گیا یا قرض کی رقم کو سود حاصل کرنے کے لیے بینکوں میں رکھوا دیا گیا۔

رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر ملک مختار احمد نے مطالبہ کیا کہ اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے کہ قرض کس مقصد کے لیے دیا گیا اور یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کیا وہ مقصد پورا ہوا۔

پی اے سی نے کمیٹی کی جانب سے تحقیقات کے لیے بھیجے گئے معاملات مثال کے طور پر نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے ڈیٹا لیک ہونے کا معاملہ، بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) پروجیکٹ، ٹین بلین ٹری سونامی (ٹی بی ٹی ٹی) اور پنشن سے متعلق کیسز سمیت اس طرح کے معاملات کی تحقیقات میں ناکامی پر بھی نیب کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا۔

اراکین کی جانب سے سب سے زیادہ جس بات پر ناراضی کا اظہار کیا گیا وہ چیئرمین نیب کی غیر حاضری تھی اور ادارے کی ٹیم کی ناقص تیاری تھی، چیئرمین نیب ایک بار پھر اجلاس سے غیر حاضر تھے، اس دفعہ غیر حاضری کی وجہ ان کی صحت کے مسائل تھے۔

اجلاس کے دوران نیب نے بی آر ٹی کیس میں 2 سے 3 ہفتوں کے دوران ریفرنس دائر کرنے کا دعویٰ کیا، نیب کے ایک سینئر افسر نے کہا کہ ہماری اولین ترجیح ریکوری ہے، اس موقع پر نور عالم خان نے نیب کو صرف کرپٹ لوگوں کے پیچھے لگنے کی ہدایت کی ۔

آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی فلمساز حیا فاطمہ اقبال کی فلم ایمی ایوارڈ کیلئے نامزد

اسکردو ائیرپورٹ پر 14 اگست کو پہلی بین الاقوامی پرواز اترے گی

مصباح کی سربراہی میں پی سی بی کی تین رکنی کرکٹ ٹیکنیکل کمیٹی تشکیل