ژوب کینٹ کے حملہ آوروں کی شناخت افغان شہریوں کے طور پر ہوگئی، دفترخارجہ کا سخت ردعمل
دفترخارجہ نے گزشتہ ماہ بلوچستان کے علاقے ژوب کینٹ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے میں ملوث دہشت گردوں کی شناخت افغانستان کے شہریوں کے طور پر ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے شدید ردعمل دیا ہے۔
دفترخارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ ’ژوب کینٹ میں دہشت گردی میں ملوث افغان دہشت گردوں کی تصدیق ہوگئی ہے اور اس پر شدید رد عمل دیا گیا‘۔
بیان میں کہا گیا کہ ’12 جولائی کو ژوب کینٹ پر حملے میں ملوث 3 دہشت گردوں کی شناخت افغان شہریوں کے طور پر ہو گئی ہے اور دہشت گردوں کا تعلق افغانستان کے صوبہ قندھار سے ہے‘۔
مزید بتایا گیا کہ ’دفتر خارجہ نے افغان سفارت خانے کو دہشت گردوں کی لاشیں وصول کرنے کی ہدایات دے دی ہیں‘۔
دفترخارجہ نے کہا کہ ’افغان دہشت گردوں کی پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں مسلسل ملوث ہونا اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال پر اظہارِتشویش اور مذمت کی گئی ہے‘۔
یاد رہے کہ 12 جولائی کو ژوب میں واقع گیریژن میں دہشت گردوں کے حملے میں 9 فوجی جوان شہید اور جوابی کارروائی میں 5 دہشت مارے گئے تھے۔
آئی ایس پی آر نے بیان میں کہا تھا کہ بلوچستان کے علاقے ژوب کینٹ میں علی الصبح دہشت گردوں کے ایک گروپ نے حملہ کیا اور تنصیب میں گھسنے کی کوشش کی جنہیں ڈیوٹی پر موجود جوانوں نے روکا اور فائرنگ کا شدید تبادلہ ہوا، جس کے نتیجے میں دہشت گرد چھوٹی جگہ پر محدود ہوگئے۔
کلیئرنس آپریشن کی تکمیل کے بعد جاری بیان میں آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ حملے میں زخمی ہونے والے مزید 5 جوان بھی شہید ہوگئے اور تعداد 9 ہوگئی جبکہ اس دوران 5 دہشت گرد بھی مارے گئے۔
بعد ازاں 16 جولائی کو ایک مرتبہ پھر بلوچستان کے ضلع ژوب میں مسلح عسکریت پسندوں کے ایک گروپ کی جانب سے آدھی رات کے بعد کینٹ کے علاقے میں حملے کی کوشش کی گئی تھی تاہم سیکیورٹی فورسز نے اس سے ناکام بنایا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مسلح عسکریت پسندوں کے ایک گروپ کی جانب سے ژوب کینٹ پر رات کو حملہ کیا گیا تاہم پہلے سے ہائی الرٹ سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کی گیریژن میں داخلے کی کوشش ناکام بنا دی۔
حکام نے اس حملے کی کوشش کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلح دہشت گردوں نے ائیرپورٹ روڈ کی جانب سے حملہ کیا، تاہم سیکیورٹی فورسز جو پہلے سے چوکس اور الرٹ تھیں، انہوں نے فوری طور پر پوزیشنیں سنبھال لیں اور جوابی فائرنگ کی۔
ژوب میں تعینات ایک سینئر اہلکار نے بتایا تھا کہ فائرنگ اور دھماکوں کا شدید تبادلہ صبح تک جاری رہا۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے ژوب حملے کے بعد گیریژن کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ مسلح افواج کو افغانستان میں ٹی ٹی پی کو کارروائیوں کے لیے دستیاب مواقع پر تشویش ہے۔
آئی ایس پی آر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’افغانستان کی عبوری حکومت سے توقع تھی کہ وہ حقیقی معنوں اور دوحہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں کی روشنی میں کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردوں کی سہولت کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دے گی‘۔
آئی ایس پی آر نے کہا تھاکہ ’پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا ایک اور تشویش ہے، جس کو حل کرنے کی ضرورت ہے‘۔
دہشت گردی کی کارروائیوں کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’اس طرح کے واقعات ناقابل برداشت ہیں جن پر پاکستان کی مسلح افواج کی جانب سے مؤثر جواب دیا جائے گا‘۔
بعدازاں یکم اگست کو وزیراعظم شہباز شریف نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور مولانا فضل الرحمٰن کے ہمراہ پشاور کا دورہ کیا تھا جہاں باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام کے جلسے میں دھماکے سے زخمی ہونے والے افراد کی عیادت کی تھی اور افغان حکومت پر زور دیا گیا تھا وہ اپنی سرزمین دوسروں کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔
وزیر اعظم نے خودکش دھماکوں میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے، سرحد پار سے معصوم شہریوں پر بزدلانہ حملوں کی منصوبہ بندی اور پاکستان دشمن عناصر کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
شہباز شریف نے کہا تھا کہ افغان عبوری حکومت کو اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں ۔