بھارتی ریاست ہریانہ میں ہندو، مسلم فسادات جاری، ہلاکتوں کی تعداد 6 ہوگئی
بھارتی ریاست ہریانہ میں مسلسل 2 روز سے جاری رہنے والے ہندو، مسلم فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد 6 ہوچکی ہے، جہاں پولیس رہائشی آبادیوں میں گشت بھی کرتی رہی۔
خبر رساں اداروں ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق ضلع میں بدامنی کا آغاز پیر کو اس وقت ہوا جب انتہا پسندوں نے نئی دہلی سے 75 کلومیٹر جنوب میں واقع مسلم اکثریتی ضلع نوح سے گزرنے والے ایک ہندو مذہبی جلوس پر پتھراؤ کیا اور گاڑیوں کو آگ لگا دی۔
اسی رات پُرتشدد واقعات کا سلسلہ نوح سے متصل علاقے گروگرام شہر تک پھیل گیا، جہاں مشتعل افراد نے مسجد کو نذرِآتش کر دیا تھا اور املاک کو نقصان پہنچایا، گروگرام کاروباری معاملات کے لیے مرکزی شہر سمجھا جاتا ہے جہاں نوکیا، سیمسنگ اور دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر موجود ہیں۔
ایک محلے میں دیکھا گیا کہ ہاتھوں میں پتھر اور ڈنڈے اٹھائے 200 افراد کے مشتعل ہجوم نے گوشت کی دکانوں کو لوٹا اور مذہبی نعرے لگاتے ہوئے ریسٹورنٹ کو آگ لگادی۔
ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر نے کہا کہ پُرتشدد واقعات میں 6 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ اب تک 116 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
انہوں نے بدھ کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجرمان کو چھوٹ نہیں دی جائے گی، ہم عوام کی حفاظت کے لیے پُرعزم ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ حفاظتی طور پر نئی دہلی کے کچھ علاقوں میں بھی سیکیورٹی سخت کردی ہے۔
مقامی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ تناؤ کی فضا اس وقت پیدا ہوئی جب نامور ہندو قوم پرست اور قوم پرست دائیں بازو کے گروہ بجرنگ دل کے رہنما مانو مانیسر نے ضلع نوح میں پیر کے روز ہونے والی ریلی میں شرکت کا اعلان کیا۔
مانو مانیسر پولیس کو اس الزام میں مطلوب ہیں کہ انہوں نے ہریانہ ریاست میں ہی 2 مسلمان مویشیوں کے تاجروں کو قتل کیا تھا۔
مانو مانیسر پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ گائے کی ترسیل کرنے والے یا انہیں ذبح کرنے والے مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں جہاں وہ ان حملوں کی خوشی مناتے ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ مانو مانیسر مفرور ہیں اور اسی لیے وہ ریلی میں بھی شریک نہیں ہوئے۔
2014 میں نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد بھارت میں اکثریتی ہندوؤں اور 20 کروڑ مسلم اقلیتوں کے درمیان متعدد بار پُرتشدد واقعات پیش آچکے ہیں۔
ناقدین حکمران اور ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلم کمیونٹی کے ساتھ ناروا سلوک کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔
سال 2020ء میں صرف نئی دہلی میں ہونے والے مذہبی فسادات میں 53 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
2002ء میں جب گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی تھے، اس وقت کم از کم ایک ہزار افراد مارے گئے تھے جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے فسادات کے دوران مودی کے اقدامات پر ایک دستاویزی فلم نشر کرنے کے بعد بھارتی ٹیکس حکام نے فروری میں بی بی سی انڈیا کے دفتر پر چھاپہ مارا تھا۔
بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے 2012ء میں تحقیقاتی کمیٹی نے نریندر مودی کو یہ کہہ کر بری الذمہ قرار دیا تھا کہ انہیں مودی کے خلاف شواہد نہیں ملے۔