انتخابی نتائج بدلنے کا الزام، ڈونلڈ ٹرمپ پر فردِ جرم عائد
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر 2020 کے انتخابات کے نتائج تبدیل کرنے کی کوششوں پر فرد جرم عائد کردی گئی۔
سابق صدر پر چار ماہ کے دوران تیسری مرتبہ مجرمانہ الزام عائد کیا گیا جب کہ وہ اب بھی آئندہ سال دوبارہ صدارت حاصل کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز ’ کی خبر کے مطابق 4 الزامات سے متعلق 45 صفحات پر مشتمل فرد جرم میں ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے کانگریس کو ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کی جیت کی تصدیق کرنے سے روکنے اور ووٹروں کو منصفانہ انتخابات کے حق سے محروم کر کے امریکا کو دھوکا دینے کی سازش کی۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھوکہ دہی کے دعوؤں کو آگے بڑھایا جن کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ وہ غلط ہیں، نائب صدر مائیک پینس سمیت دیگر ریاستی اور وفاقی حکام پر نتائج کو تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا اور امریکی جمہوریت کو کمزور کرنے اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی انتہائی کوشش میں آخر کار اپنے حامیوں کو کیپیٹل ہل پر حملے پر اکسایا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو جمعرات کے روز واشنگٹن کی وفاقی عدالت میں ابتدائی پیشی کا حکم دیا گیا ہے، یہ مقدمہ امریکی ڈسٹرکٹ جج تانیا چٹکن کی عدالت میں مقرر کیا گیا ہے جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ کے پیشرو براک اوباما نے تعینات کیا تھا۔
یہ الزامات اسپیشل کونسل جیک اسمتھ کی جانب سے کی گئی ان الزامات کی وسیع تحقیقات کے بعد سامنے آئے ہیں جن میں ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بائیڈن کے مقابلے میں اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی۔
عوامی رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق بڑھتی قانونی پریشانیوں کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے ریپبلکن صدارتی نامزدگی کے لیے بطور مضبوط ترین امیدوار اپنی حیثیت مستحکم کر لی ہے۔
ان کی جانب سے کئی ہفتوں کے ان دعووں کے بعد کہ انتخابات چوری کیے گئے، 6 جنوری 2021 کو جب کانگریس نے انتخابی نتائج کی تصدیق کے لیے میٹنگ کی، ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اشتعال انگیز تقریر کی جس کے فوری بعد ان کے حامیوں نے کانگریس کو جو بائیڈن کی جیت کو فورملائز کرنے سے روکنے کے لیے کیپیٹل ہل پر دھاوا بول دیا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل جون میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ عہدہ چھوڑنے کے بعد ان پر خفیہ دستاویزات کو سنبھالنے کے معاملے پر فرد جرم عائد کردی گئی ہے، جو ان کے لیے سب سے سنگین قانونی خطرہ ہے، کیونکہ مجرمانہ تحقیقات کے طوفان نے وائٹ ہاؤس میں دوسری مدت کے لیے ان کی کوششوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
فرد جرم عائد ہونے کی خبر کو شیئر کرنے کے بعد جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بار بار اپنی بے گناہی کا اعلان کیا اور فرد جرم کو جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے محکمہ انصاف کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے الیکشن میں مداخلت کی کوشش قرار دیا۔
سابق امریکی صدر نے ویڈیو میں کہا کہ ’وہ میرے پیچھے پڑے ہیں کیونکہ اب ہم دوبارہ انتخابات کی دوڑ میں جو بائیڈن کے خلاف بہت آگے ہیں، ہمارا ملک جہنم میں جا رہا ہے اور وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پیچھے پڑے ہیں، ہم اسے جاری نہیں رہنے دے سکتے‘۔
خیال رہے کہ امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ کے نامزد کردہ خصوصی وکیل جیک اسمتھ ان خفیہ دستاویزات کے ذخیرے کا جائزہ لے رہے ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد فلوریڈا میں اپنی مار-اے-لاگو رہائش گاہ پر محفوظ کر رکھے تھے۔
ایف بی آئی نے اگست میں مار-اے-لاگو کے سرچ وارنٹ ملنے کے بعد بعد تقریباً 11 ہزار کاغذات کو ہٹا دیا تھا اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ کا الزام ان کاغذات کے ذخیرے کی بازیابی کے دوران ان کی جانب سے مزاحمت کرنے کی کوشش کانتیجہ ہوسکتا ہے۔
بالآخر جنوری 2022 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشنل آرکائیوز کو تقریباً 200 خفیہ دستاویزات پر مشتمل 15 ڈبے حوالے کیے تھے، لیکن ان کے پاس موجود کسی بھی بقایا ریکارڈ کے لیے انہیں عدالت میں پیش ہونا پڑا تھا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل مارچ 2023 میں بھی نیویارک کی عدالت نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2016 میں انتخابی مہم کے دوران ایک پورن اسٹار کو خاموش رہنے کے لیے رقم دینے کے الزام میں زیر سماعت مقدمے میں فرد جرم عائد کردی تھی، اس طرح ٹرمپ مجرمانہ الزامات کا سامنا کرنے والے پہلے امریکی صدر بن گئے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے 2016 کے صدارتی انتخاب سے قبل پون اسٹار اسٹیفنی کلیفورڈ عرف اسٹورمی ڈینیئلز کو تعلقات کی معلومات چھپانے کے لیے ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر ادا کیے تھے۔