پاکستان

ملازمہ تشدد کیس: سول جج کی اہلیہ کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور

ایڈیشنل سیشنز جج ڈاکٹر عابدہ سجاد نے ملزمہ کی 7 اگست تک عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیا۔
|

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ نے 13 سالہ ملازمہ پر تشدد کے کیس میں سول جج کی اہلیہ و مرکزی ملزمہ سومیہ عاصم کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کی عبوری ضمانت میں 7 اگست تک توسیع کردی۔

سول جج کی اہلیہ نے اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی، ایڈیشنل سیشنز جج ڈاکٹر عابدہ سجاد نے درخواست پر سماعت کی۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ درخواست گزار پر اپنے گھر میں کام کرنے والی 14 سالہ رضوانہ کو تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ رضوانہ ملزمہ کے گھر بطور نوکر کام کر رہی تھیں، تاہم باقی بات ایسی نہیں جیسی ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار معصوم ہیں، انہوں نے کبھی رضوانہ کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا، درخواست گزار پڑھی لکھی، سول جج کی اہلیہ ہیں۔

اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے ملزمہ کو یکم اگست تک حفاظتی ضمانت دی تھی، وہ یکم اگست (آج) تک حفاظتی ضمانت پر تھیں، درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت ملزمہ سومیہ عاصم کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرے۔

سول جج کی اہلیہ اور مرکزی ملزم سومیہ عاصم عدالت میں پیش ہوئیں، عدالت نے وکلا کو ملزمہ کا شناختی کارڈ لانے کی ہدایت کی، جج نے کہا کہ شناختی کارڈ لائیں تاکہ میں ان کو پہنچان سکوں کہ یہ سومیہ عاصم ہی ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے سومیہ عاصم کی 7 اگست تک عبوری ضمانت منظور کرلی، ملزمہ کی ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض عبوری ضمانت منظور کی گئی۔

ایڈیشنل سیشنز جج ڈاکٹر عابدہ سجاد نے بطور ڈیوٹی جج عبوری ضمانت منظور کی جب کہ آئندہ سماعت پر ملزمہ کو ایڈیشنل سیشنز جج فرخ فرید کی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا۔

واضح رہے کہ دو روز قبل مالکان کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والی کم عمر ملازمہ کو طبیعت بگڑنے پر لاہور جنرل ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں منتقل کر دیا گیا تھا اور لاہور جنرل ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو پروفیسر الفرید ظفر نے بچی رضوانہ کے لیے آئندہ 48 گھنٹے انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بچی کا علاج کرنے والے سینئر ڈاکٹروں کے خصوصی بورڈ کو خدشہ ہے کہ اسے وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

رضوانہ کے والد ایک پیشہ ور مزدور ہیں، لڑکی کا تعلق سرگودھا سے ہے، اسے 24 جولائی کو تشویشناک حالت میں لاہور جنرل ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، اسلام آباد کے ایک سول جج کی اہلیہ نے بچی پر سونے کے زیورات چوری کرنے کا الزام لگا کر اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے اسلام آباد پولیس نے سول جج کی اہلیہ کے خلاف گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کا مقدمہ درج کر لیا تھا، ایف آئی آر میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 506 (مجرمانہ ارادہ) اور دفعہ 342 (حبس بے جا میں رکھنا) شامل کی گئی تھیں۔

بعد ازاں مقدمے میں نوعمر گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں نئی دفعہ کا اضافہ کردیا تھا، پولیس افسران نے تصدیق کی تھی کہ ایف آئی آر میں دفعہ 328-اے (بچے پر ظلم) کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

اس سیکشن میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی جان بوجھ کر کسی بچے/ بچی پر حملہ کرتا ہے، بدسلوکی کرتا ہے، لاوارث چھوڑ دیتا ہے یا کسی ایسی کوتاہی کا ارتکاب کرتا ہے، جس کے نتیجے میں بچے کو جسمانی یا نفسیاتی طور پر چوٹ پہنچنے سے اسے نقصان ہو یا وہ زخمی ہو تو ایسے شخص کو کم از کم ایک سال سے 3 سال تک قید یا 25 ہزار روپے سے 50 ہزار روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔

افسران نے بتایا کہ سول جج کے گھر میں ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی 13 سالہ لڑکی پر تشدد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان (پی پی سی) کی دفعہ شامل کی گئی۔

اس کے علاوہ گزشتہ روز بھی کیپیٹل پولیس نے سول جج کی اہلیہ کے خلاف درج ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان (پی پی سی) کی مزید 8 دفعات شامل کر دیں تھیں۔

میں نے جھوٹا ڈیکلریشن جمع نہیں کروایا، چیئرمین پی ٹی آئی کا عدالت میں بیان

قومی ہاکی ٹیم چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کیلئے بھارت پہنچ گئی