ٹیری کا مندر اور خیبرپختونخوا میں مذہبی سیاحت کے مواقع
شان دار پہاڑوں اور سرسبز وادیوں کے درمیان واقع، خیبر پختونخوا کا خطہ گہری مذہبی اہمیت کا حامل ہے، جہاں دنیا بھرکے ہندو، بدھ مت اور سکھ زائرین کے لیے کئی مقدس مقامات موجود ہیں۔
خیبر پختونخوا میں مذہبی سیاحت کی جڑیں صدیوں پر محیط ہیں۔ یہاں بدھ مت کے قدیم مقامات بھی موجود ہیں جو تخت بھائی، صوابی، مردان میں ہیں جہاں ہر سال زائرین آتے ہیں۔ یہ مقامات یہاں ایک زمانے میں پروان چڑھنے والی گندھارا تہذیب کے گواہ ہیں اور اس خطے میں بدھ مت کے اثر و رسوخ کا ثبوت ہیں۔
وادی سوات اپنے دل کش منظرنامے کے ساتھ، ماضی کے آثار سے مزین ہے۔ ان میں بٹکارہ اسٹوپا بھی شامل ہے۔ اس طرح ہندو مذہب کے پیروکاروں کے لیے خیبر پختونخوا کا دارالحکومت پشاور ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ اس شہر میں کئی اہم ہندو مندر ہیں، جن میں گور کھتری اور بالمیکی مندر بھی شامل ہیں۔ یہ مندر علاقے میں مذہبی رواداری اور ثقافتی تنوع کی علامت ہیں۔
سکھ مذہب کا بھی خیبر پختونخوا کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ حسن ابدال میں واقع پنجہ صاحب گردوارے کو دنیا بھر کے سکھ اس لیے عزت دیتے ہیں کیونکہ سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو جی نے اپنے روحانی سفر کے دوران اس مقدس مقام کا دورہ کیا تھا۔ گرودوارے کا ماحول روحانی سکون اور اپنے عقیدے کی تاریخ کے متلاشی زائرین کو اپنی جانب راغب کرتا ہے۔
ثقافتی طور پر متنوع مذہبی منظرنامے کے درمیان، پشاور میں پشتو کے معروف صوفی شاعر رحمٰن بابا کا مزار عوام کے لیے ایک قابل قدر مقام رکھتا ہے۔ جہاں اس خطے کی مذہبی اہمیت کو اچھی طرح سے منایا جاتا ہے، وہیں ضلع چترال کی وادی کالاش میں ایک ثقافتی عجوبہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
اسی طرح کرک میں ہندوؤں کی واحد سمادھی ٹیری مندر سیاحوں کے لیے بہت پُرکشش ہے۔ شری پرم ہنس جی مہاراج کی یہ سمادھی نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پاکستان کے مختلف حصوں اور اس سے باہر ہندو برادری کے لیے مذہبی اہمیت رکھتی ہے۔ ٹیری کا یہ مندر ایک مقدس مقام کے طور پر ہندو عقیدت مندوں اور یاتریوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے جو یہاں تعظیم دینے، آشیرواد حاصل کرنے اور مذہبی رسومات میں حصہ لینے کے لیے آتے ہیں۔
یہ مقام شری پرم ہنس جی مہاراج سے روحانی تعلق اور عقیدت کی جگہ کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ علاقے میں ہندو برادری کے بھرپور مذہبی اور ثقافتی ورثے کی علامت کے طور پر کام کررہا ہے۔ 2020ء میں اس کو جلایا دیا گیا تھا اور اس سے قبل 1997ء میں بھی اس پر حملہ کیا گیا تھا۔ اب اس کی دوبارہ تعمیر کردی گئی ہے۔
زائرین اب بےخوف و خطر ہوکر اپنی رسومات ادا کرتے ہیں جس سے ٹیری میں مذہبی سیاحت کا آغاز ہوگیا ہے کیونکہ ہندو کثیر تعداد میں ٹیری کی زیارت کرتے ہیں اور کچھ دن گزار کر واپس چلے جاتے ہیں۔ پہلے یہ سمادھی کے نام سے جانی جاتی تھی اب یہ سمادھی مندر کے نام سے مشہور ہے جس میں ہندو زائرین اپنی پوجا کرتے ہیں اور گرو پرم ہنس کو یاد کرتے ہیں۔
اب کچھ تعارف گرو پرم ہنس کا بھی ہوجائے۔ شری پرم ہنس سوامی ادویتانند جی مہاراج (پیدائش شری رام یاد) جنہیں شری پرم ہنس دیال مہاراج جی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، شری تلسی داس جی پاٹھک کے بیٹے تھے۔ آپ چھپرا شہر میں ضلع سارن، بہار، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ شری پرم ہنس دیال مہاراج جی کو شری پرم ہنس ادویت کے پہلے روحانی استاد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
شری پرم ہنس دیال جی نے جگہ جگہ سفر کیا اور سہج یوگا، بھکتی اور انسانیت کی خدمت کا پیغام سب تک پہنچایا۔ شری پرم ہنس دیال جی کافی وقت تک جے پور میں رہے اور وہاں کے لوگوں کی روحانی تبلیغ اور ترقی کا کام شروع کیا۔ وہاں ان کے پیروکاروں کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ شری پرم ہنس دیال جی نے 10 جولائی 1919ء کو سوامی سوارو پانند جی کو جانشینی منتقل کی۔
گرو پر ماہانس نے ٹیری میں کافی وقت گزار اور یہاں ان کے کافی مرید بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیری میں ایک مقدس سمادھی مزار بنایا گیا تھا۔ پاکستان کے مذہبی اور ثقافتی ورثے کی کھوج میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے، خیبر پختونخوا میں شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی جیسے مقدس مقامات کا دورہ کرنا روحانی اور ثقافتی طور پر عمیق تجربہ ہوتا ہے۔
حکومت اور مقامی حکام زائرین کے لیے انفرااسٹرکچر اور سہولیات کو بہتر بنانے کی کوششوں کے ساتھ خیبر پختونخوا میں مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ اس حوالے سے ٹیری کرک کے مندر (سمادھی) کے دیکھ بھال کرنے والے ایڈووکیٹ روہت کمار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی سیاحت کو تو فروغ نہیں مل پارہا مگر مذہبی سیاحت کے حوالے سے پاکستان خاص طور پر خیبر پختونخوا بہت زیادہ مالامال ہے۔
روہت کمار کا کہنا تھا کہ ’ٹیری کی حیثیت بھی ایک طرح سے کرتار پور جیسی ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گرو پرم ہنس کے مرید پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر خیبر پختونخوا میں اس پر کام کیا جائے تو ٹیری میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوگی۔ اس کی دوبارہ تعمیر کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان خود آئے تھے جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’سنگارپور، بھارت، امریکا اور کینیڈا سے لوگ اس مندر کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ اس سے صوبے کی معیشت بہتر ہوسکتی ہے‘۔ اس حوالے سے پریم تلریجا (ریٹائرڈ) سینیئر چیف انجنیئر کا کہنا ہے کہ ’بابا کے مرید پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ نیویارک، شکاگو، نیو جرسی اور باسٹن سمیت پورے امریکا میں ان کے 12 آشرم ہیں۔ لندن، سنگاپور، منیلا اور بھارت کے تو ہر کونے میں بابا کے آشرم موجود ہے مگر ان کی سمادھی ٹیری میں ہے۔ یہ ہمارے لیے فخر کا مقام ہے کہ ہم اس کے نزدیک رہتے ہیں اور جب جی چاہتا ہے ہم آجاتے ہیں مگر دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مرید وسائل ہونے کے باوجود بھی زیارت کے لیے یہاں نہیں آسکتے‘۔
پریم تلریجا کہتے ہیں کہ ’بیرونِ ملک سے زائرین کے یہاں آنے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم یہاں ٹیری میں کتنے افراد کو ٹھہرا سکتے ہیں اور یہاں انتظامات کیسے ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس 3 سو سے 4 سو افراد کی رہائش، کھانے پینے اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام موجود ہے۔
’لیکن ان 3 سو سے 4 سو لوگوں میں سے تقریباً 2 سو زائرین تو پاکستان کے ہی ہوجاتے ہیں یوں بیرونِ ملک سے ڈیڑھ یا 2 سو سے زیادہ زائرین کے آنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے ہر ملک سے بس چند لوگ ہی زیارت کے لیے آتے ہیں‘۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں دو، تین مرتبہ بیرونِ ملک سے زائرین بڑی تعداد میں اس مندر کی زیارت کے لیے آئے ہیں۔ ہر مرتبہ ان زائرین کی تعداد 100 سے 200 کے درمیان تھی۔ تاہم ٹیری میں مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں پشاور اور اسلام آباد کے ہوٹلوں میں ٹھہرانا پڑتا تھا۔
اب ہندو برادری نے ٹیری میں ایک زمین خرید کر وہاں گیسٹ ہاؤس کی تعمیر شروع کی ہے۔ 6 منزلہ اس عمارت میں کُل 90 کمرے ہوں گے۔ اس کے علاوہ اس میں 70 کے قریب گاڑیوں کو پارک کرنے کی بھی گنجائش ہوگی۔ یہ گیسٹ ہاؤس بیرون ملک یا پاکستان سے ہی آنے والے زائرین کو ٹھہرانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس منصوبے کی تعمیر کا کُل تخمینہ 40 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔
پریم تلریجا کے مطابق ’اگر حکومت کوشش کرے تو ٹیری کو ایک اچھا سیاحتی مقام بنایا جاسکتا ہے۔ جس طرح تیل اور گیس کی وجہ سے علاقے کی قسمت بدل رہی ہے اسی طرح سیاحت سے بھی یہ علاقہ ترقی کرے گا‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’بھارت میں موجود شری پرم ہنس کے مریدوں کو بھارتی پاسپورٹ کی وجہ سے ویزا ملنے میں دشواری ہوتی ہے۔ ہم بھی بھارت جاتے ہیں تو ہمیں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے اور ویزا آسانی سے ملنا شروع ہوجائیں تو گرو جی کے لاکھوں پیروکار زیارت کے لیے ہرسال یہاں کا رخ کریں گے۔ ان میں بیرونِ ملک سے آنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی اور یہ علاقہ مذہبی سیاحت کے حوالے سے ایک مقام حاصل کرلے گا‘۔
مصنف ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں اور پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔