پی ٹی آئی کا آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری دینے پر پارٹی سینیٹر سے تحقیقات کا فیصلہ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے ترمیمی بل کی سینیٹ سے منظوری پر اپنے سینیٹرز کے کردار کی تحقیقات کا فیصلہ کرلیا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پارٹی کی کورکمیٹی کا اہم ترین اجلاس چئیرمین عمران خان کی صدارت میں ہوا جہاں ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال، آئندہ انتخابات کے لیے جماعتی سطح پر تیاریوں اور سیاسی حکمت عملی سمیت اہم امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ ایوان بالا (سینیٹ) میں آرمی ایکٹ کی منظوری کے عمل میں پی ٹی آئی کے اراکین کے کردار کا بھرپور جائزہ لیا اور پارٹی کے سینیٹرز کے کردار پر بات کی گئی۔
پی ٹی آئی نے کہا کہ چئیرمین پی ٹی آئی کی جانب سے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری میں تحریک انصاف کے اراکین کے کردار کی باضابطہ تحقیقات کی منظوری دی گئی اور سینیٹر شبلی فراز پر مشتمل ایک رکنی کمیشن معاملے کی جامع تحقیقات کرے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ سینیٹر شبلی فراز پر مشتمل ایک رکنی کمیشن بلاتاخیر تحقیقات مکمل کر کے چئیرمین پی ٹی آئی کو رپورٹ پیش کرے گا اور شبلی فراز کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں پارٹی پالیسی سے انحراف کے مرتکب افراد کے خلاف تادیبی کارروائی آگے بڑھائی جائے گی۔
آرمی ایکٹ میں ترمیم
خیال رہے کہ 27 جولائی کو سینیٹ میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 منظور کرلیا گیا تھا، جس کے تحت ’پاکستان آرمی ایکٹ 1952‘ میں مجموعی طور پر 18 ترامیم پیش کی گئی تھیں۔
بل کے متن کے مطابق سرکاری حیثیت میں پاکستان کی سلامتی اور مفاد میں حاصل معلومات کا غیر مجاز انکشاف کرنے والے شخص کو 5 سال تک قید مشقت کی سزا دی جائے گی۔
بل کے مطابق آرمی چیف یا بااختیار افسر کی اجازت سے انکشاف کرنے والے کو سزا نہیں ہوگی، پاکستان اور افواج پاکستان کے مفاد کے خلاف انکشاف کرنے والے سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے تحت نمٹا جائے گا۔
اس قانون کے ماتحت شخص سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا، متعلقہ شخص ریٹائرمنٹ، استعفیٰ، برطرفی کے 2 برس بعد تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔
بل کے تحت حساس ڈیوٹی پر تعینات شخص 5 سال تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا، سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے کو 2 سال تک سخت سزا ہو گی۔
آرمی ایکٹ کے تحت کوئی شخص اگر الیکڑونک کرائم میں ملوث ہو جس کا مقصد پاک فوج کو بدنام کرنا ہو تو اس کے خلاف الیکٹرونک کرائم کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
ترمیمی بل کے تحت اگر کوئی شخص فوج کو بدنام کرے یا اس کے خلاف نفرت انگریزی پھیلائے تو اسے 2 سال تک قید اور جرمانہ ہو گا۔
پی ٹی آئی اراکین کو شوکاز نوٹس
پی ٹی آئی نے کئی اراکین کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بات نوٹس میں آئی ہے کہ انہوں پارٹی پالیسی کے برخلاف سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تبدیل کرنے کی حمایت کی۔
پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان کے دستخط سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق سندھ کے اراکین اسمبلی کو پارٹی پالیسی کے خلاف اپوزیشن لیڈر کو ووٹ دینے پر شو کاز نوٹس دیا گیا ہے۔
سندھ اسمبلی کے اراکین میں سید عمران علی شاہ، سنجے گنگوانی، سچنند لکھوانی سچل، رابعہ اظفر نظامی کو سندھ اپوزیشن لیڈر کو ووٹ دینے کے الزام میں شوز کاز نوٹس جاری کردیا جبکہ عمر عمیری، محمد علی عزیز، کریم بخش گبول اور بلال احمد کو بھی پارٹی پالیسی کے خلاف جاکر اپوزیشن لیڈر کو ووٹ دینے پر شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی نے بتایا کہ پارٹی کی جانب سے تمام اراکین کو نوٹس جاری ہونے کے تین دن کے اندر وضاحت پیش کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور جواب موصول نہ ہونے یا غیر تسلی بخش جواب دینے کی صورت میں تمام اراکین کے خلاف پارٹی پالیسی کے تحت مزید کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں سندھ اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی رکن رعنا انصار کو اپوزیشن لیڈر مقرر کیا گیا تھا اور اسمبلی کی تاریخ میں پہلی خاتون اپوزیشن لیڈر بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
رعنا انصار کو سندھ اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے پی ٹی آئی کے حلیم عادل شیخ کو اپوزیشن لیڈر کے منصب سے ہٹانے کے بعد ان کی جگہ اپوزیشن لیڈر بنایا گیا تھا۔
حلیم عادل شیخ کی جگہ رعنا انصار کو اپوزیشن لیڈر بنانے کا مقصد پی پی پی اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان صوبے میں نگران وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے مفاہمت قرار دیا گیا تھا کیونکہ سندھ اسمبلی اگلے ماہ اپنی مدت مکمل کرکے تحلیل ہوجائے گی۔