پاکستانی ہر اچھی انڈین چیز کو پسند کرتے ہیں لیکن بھارتی ایسا نہیں کرتے، عدنان صدیقی
مقبول اداکار عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ بھارتیوں کے مقابلے پاکستانی عوام زیادہ روادار اور امن پسند ہیں اور پاکستانی ہر اس ہندوستانی چیز کو پسند کرتے ہیں جو اچھی ہوتی لیکن انڈین عوام ایسا نہیں کرتے۔
عدنان صدیقی نے ’انڈین ایکسپریس‘ کو دیے گئے انٹرویو میں شکوہ کیا کہ پاکستانی عوام اچھے بھارتی کرکٹرز، فلم اسٹارز اور دیگر چیزوں کو پسند کرتے ہیں لیکن ہندوستانی لوگ ایسا نہیں کرتے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بھارتیوں کے مقابلے پاکستانی عوام زیادہ روادار ہیں لیکن سرحد پار سیاست کی جاتی ہے۔
انٹرویو کے دوران عدنان صدیقی نے اعتراف کیا کہ بولی وڈ فلموں کا مقابلہ پاکستانی فلمیں نہیں کر سکتیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی ڈراموں کا مقابلہ بھارتی ڈرامے نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی فلمیں بھارتی ڈراموں کی طرح ہیں جب کہ ہندوستانی ڈرامے پاکستانی فلموں کی طرح ہیں۔
اداکار کے مطابق پاکستان میں ٹی وی انڈسٹری کے زیادہ اسٹارز اور لکھاری ہیں جب کہ 70 اور 80 کی دہائی میں پوری دنیا میں پاکستانی ڈراموں کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔
عدنان صدیقی نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ طویل عرصے بعد جلد ہی شائقین ان کا مقبول ترین ڈراما ’میرے پاس تم ہو‘ ٹی وی اسکرین پر دیکھ سکیں گے۔
ان کے مطابق 2017 میں جب وہ سری دیوی کے ساتھ فلم ’موم‘ کی شوٹنگ کے لیے بھارت گئے تب وہ کچھ کھانے کے لیے پرانی دہلی گئے، جہاں انہیں بھارتی مداحوں نے گھیر لیا۔
ان کے مطابق جانے سے قبل انہیں پروڈیوسر بونی کپور نے کہا تھا کہ وہ اپنے ساتھ سیکیورٹی لے جائیں کیوں کہ انہیں مداح تنگ کر سکتے ہیں۔
عدنان صدیقی کے مطابق انہوں نے بونی کپور کو کہا تھا کہ انہیں یہاں کوئی نہیں پہچانے گا لیکن وہ اس وقت دنگ رہ گئے جب وہ پرانی دہلی پہنچے اور مداحوں نے انہیں گھیر لیا۔
ایک سوال کے جواب میں عدنان صدیقی نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ آرٹ کی کوئی سرحد نہیں ہوتی لیکن یہ حقیقت ہے کہ آرٹسٹ کی کچھ ذمہ داریاں اور قید و پابندیاں ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک میں فنکاروں کو کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور بھارت میں پاکستانی گانوں کی مقبولیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ پاکستانی فنکاروں کو پسند کرتے ہیں۔
دوران انٹرویو اداکار نے انکشاف کیا کہ ’موم‘ میں کام کرنے کے بعد بھی نوازالدین صدیقی کے مینیجر انہیں بولی وڈ میں کام کرنے کے لیے کہتے رہے لیکن اس وقت حالات ایسے ہوچکے تھے کہ انہیں بہت کچھ سوچنا پڑا۔