نقطہ نظر

منی پور: بھارت میں ہندوتوا کا نیا ہدف

یہ ریاست اب اس نظریہ کا ایک اور ہدف ہے جو نریندر مودی کو پہلے گجرات اور پھر نئی دہلی میں اقتدار میں لے کر آیا۔

بھارتی ریاست منی پور کے وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ کوکی قبیلے سے تعلق رکھنے والی دو خواتین کو ہجوم کی جانب سے برہنہ کرکے پریڈ کروانا اور ان کے ساتھ زیادتی کرنا ’چند شرپسندوں کا کام ہے جو ہر ریاست میں موجود ہوتے ہیں‘۔

اس بیان سے مجھے برسوں پہلے دہلی میں امریکی سفارت خانے میں موجود ایک خاتون سفارت کار کا پریشان چہرہ یاد آگیا۔ وہ اخبار پڑھ رہی تھیں اور انہوں نے اس دوران کہا کہ ’کھائی میں بس گرنے سے 60 افراد ہلاک ہوگئے اور خبر میں کہا گیا ہے کہ وہ ایک بد قسمت حادثے میں ہلاک ہوگئے‘۔ شاید بھارت میں جس چیز کو بد قسمت حادثہ کہا جاتا ہے اسے انسانی جانوں کی قدر رکھنے والے ممالک میں سانحہ سمجا جاتا ہے۔

اگر منی پور کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے استعمال کیے جانے والے الفاظ کوہی درست سمجا جائے تو پھر دہلی کی بس میں نربہیا سے زیادتی اور اسے قتل کرنے کے جرم میں پھانسی پانے والوں کو بھی ’شرپسند‘ ہی کہا جائے گا۔ اسی طرح زیادتی کے الزام میں قید سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والا ہندو سادھو بھی ’شرپسند‘ ہی ہوگا۔

کٹھوعہ کے ایک مندر میں 8 سالہ آصفہ بانو کا ریپ کرنے والے مبینہ ’شرپسندوں‘ پر تو ہندوتوا کے حامیوں نے خوشیاں منائی تھیں۔ سب سے بڑھ کر گجرات میں ریپ کرنے والے 11 سزا یافتہ مجرموں کو گزشتہ سال بھارت کے یومِ آزادی کے موقع پر جیل سے رہا کردیا گیا جبکہ اسی روز وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعے پر ہندوستانی خواتین کے تحفظ کے بارے میں اپنے عزم کا اظہار کیا تھا۔

تاہم رہائی پانے والے ان افراد میں کوئی بھی ’شرپسند‘ نہیں تھا کیونکہ ہندوتوا حامی تو انہیں اونچی ذات کے اور ’سنسکار‘ والے برہمن قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں کا استقبال لڈوؤں سے کیا گیا۔ شاید بی جے پی سے تعلق رکھنے والے منی پور کے وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ کو اب بلقیس بانو سے زیادتی اور ان کے خاندان کے افراد کو قتل کرنے والوں کے لیے کوئی نیا لفظ سوچنا ہوگا۔

بیرن سنگھ نے یہیں پر بس نہیں کی۔ انہوں نے خواتین کی ایک ریلی میں شرکت کی اور واقعے کی خوفناک ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ اس سے ریاست کی بدنامی ہوئی ہے۔ اگر اس واقعے کی ویڈیو نہ بنتی تو شاید اس پر شرمندہ ہونے کا بھی ہوئی سوال نہ پیدا ہوتا۔

تاہم زیادتی کا شکار خواتین نے کچھ صحافیوں کے سامنے یہ واقعہ ضرور بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس بس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ اگر پولیس وہاں موجود تھی تو اس بات پر یقین کرنا مزید مشکل ہوجاتا ہے کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ تک یہ خبر نہ پہنچی ہو، خاص طور پر اس وقت جب اس جرم میں مبینہ طور اکثریتی میتی برادری سے تعلق رکھنے والے ان کی اپنی جماعت کے لوگ ملوث تھے۔ اگر وزیر اعلیٰ کو اس واقعے کے بارے میں معلوم تھا تو کیا نریندر مودی حکومت کے وزیر داخلہ کو منی پور میں ہونے والے اس خوفناک واقعے کے بارے میں نہیں بتایا گیا ہوگا؟

ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ پھر وزیر داخلہ نے اپنے باس کو یہ خبر نہ دی ہو؟ کیا نریندر مودی جان کو بوجھ کر اس واقعے سے بے خبر رکھا گیا تاکہ وہ کسی بوجھ کے بغیر اپنے غیر ملکی دورے مکمل کرسکیں؟

نریندر مودی نے ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد جمعرات کو اس معاملے پر خاموشی توڑی۔ ظاہر ہے کہ انہیں بھی اندازہ تھا کہ پارلیمنٹ کا مون سون سیشن شروع ہونے والا ہے۔ لیکن نریندر مودی نے اپنے بیان میں ریاست منی پور میں 3 مئی سے جاری قبائلی فسادات کے حوالے سے کوئی اشارہ نہیں دیا۔

مذکورہ واقعہ 4 مئی کو پیش آیا تھا، اس سے قبل ایک جھوٹی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کوکی قبیلے کے مردوں نے میتی قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ نریندر مودی نے کہا کہ اس ہجوم میں موجود مجرمان کو سزا دی جائے گی۔ اس کے بعد کم و بیش 6 افراد گرفتار بھی ہوئے۔

مودی نے اس خونی تشدد کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا جس کے نتیجے میں بہت سارے مذہبی مقامات نذر آتش ہوئے 150 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے، لوگوں کے گھر تباہ ہوئے، خواتین کو نشانہ بنایا گیا اور ایک مذہبی تقسیم کا بیج بویا گیا جس کا منی پور نے اس پیمانے پر کبھی تجربہ نہیں کیا تھا۔

مودی نے کہا کہ ’ہر ریاست چاہے وہ راجستھان ہو یا چھتیس گڑھ، اسے خواتین کی حفاظت کرنی چاہیے‘۔ لیکن مودی نے صرف ان ہی دو ریاستوں کا نام کیوں لیا؟ شاید اس وجہ یہ ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں کانگریس کی حکومت ہے اور یہاں کچھ ماہ بعد انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان انتخابات کا نتیجہ اگلے سال مودی کے انتخاب پر اثر انداز ہوگا۔

منی پور میں کوکی اور میتی قبیلے کے درمیان نسلی کشیدگی کی تاریخ پرانی ہے۔ پہاڑوں پر رہنے والے اور نسبتاً غریب کوکی افراد عیسائی ہیں جبکہ وادی میں رہنے والے اور نسبتاً خوش حال میتی قبیلے کی اکثریت ہندو ہے۔

ان کے درمیان ہونے والی کشیدگی عموماً زمین کے تنازعوں پر ہوتی تھی اور اس نے شاید ہی کبھی مذہبی رنگ اختیار کیا ہو۔ لیکن منی پور کے معدنیات سے مالا مال خطے اور جنگلات تک رسائی کے لیے کارپوریٹ دنیا نے کوئی نہ کوئی حکمت عملی بنا ہی لی۔

ویسے دیکھا جائے توبہتر تعلیم یافتہ میتی برادری کو ہندوتوا کی فرقہ وارانہ سیاست سے بیر ہے۔ گزشتہ سال بھی بھارت کے یومِ آزادی پر میتی قبیلے اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے درمیان تناؤ پیدا ہوگیا تھا۔

سالانہ یومِ محبانِ وطن (پیٹریاٹس ڈے) منانے کی روایت کی خلاف ورزی کرنے پر میتی سربراہ لیشیمبا سناجاوبا سمیت سول سوسائٹی کی تنظیموں اور طلبہ تنظیموں نے بھی ریاست میں موجود آر ایس ایس یونٹ کی مذمت کی تھی۔

امفال میں ہونے والی آر ایس ایس کی ایک تقریب میں دو مقامی ہیروز کی تصاویر کی درمیان آر ایس ایس کی جانب سے ’بھارت ماتا‘ کی تصویر رکھ دی گئی۔ اس سے منی پوری تفاخر کو ٹھیس پہنچی کیونکہ وہ لوگ اپنی تاریخ کو بھارت کی تاریخ سے علیحدہ تصور کرتے ہیں۔

میتی اپنی تاریخ پر فخر کرتے ہیں اور برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کی روایت کو خوب شان سے بیان کرتے ہیں۔ میٹی برادری میں ایک فیصد مسلمان بھی ہیں جنہیں پنگال کہا جاتا ہے۔ لیکن یہی ہندوتوا کا طریقہ کار ہے۔ یہ اقلیتوں کو شیطانی، مذہبی حریف کے طور پر نشانہ بنا کر اکثریتی ہندوؤں کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے تقسیم کی سیاست کا استعمال کرتی ہے۔ آر ایس ایس ملک کے شمال مشرقی علاقوں میں 75 سال سے زیادہ عرصے سے کام کررہی ہے اور اس کا خود ساختہ مقصد ’قومی یکجہتی‘ ہے۔

سال 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست آسام میں 34 فیصد آبادی مسلمان ہے جبکہ دیگر 5 شمال مشرقی ریاستوں میں نصف سے زیادہ آبادی عیسائی ہے (ناگا لینڈ میں 87.93 فیصد، میزورم میں 87.16 فیصد، میگھالیہ میں 74.59 فیصد، منی پور میں 41.29 فیصد اور اروناچل پردیش میں 30.26 فیصد)۔

آر ایس ایس کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ اس علاقے میں آر ایس ایس کی بنیاد اس وقت پڑی جب 27 اکتوبر 1946ء کو دو سینیئر پرچارک آسام آئے اور انہوں نے گوہاٹی، شیلانگ اور ڈبروگڑھ میں آر ایس ایس کی شاخائیں قائم کیں۔ آر ایس ایس کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں آر ایس ایس نے اروناچل پردیش، ناگا لینڈ، میگھالیہ اور میزورم کی قبائلی اکثریتی ریاستوں میں کئی پروگرام شروع کیے جن میں خاص طور پر تعلیمی پروگرام بھی شامل تھے۔

ان ریاستوں میں ریاست منی پور شامل نہیں تھی۔ یہ ریاست اب اس نظریے کا ایک اور ہدف ہے جو نریندر مودی کو پہلے گجرات اور پھر نئی دہلی میں اقتدار میں لے کر آیا۔ حالیہ کشیدگی کا بھی یہ واضح مقصد ہے کہ ہندوؤں کو منی پور کی اقلیتوں کے خلاف کردیا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ وہی پرانا اور جانا پہچانا اسکرپٹ ہے۔


یہ مضمون 25 جولائی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔