پاکستان

حکمران جماعت نگران وزیراعظم کیلئے اسحٰق ڈار کے نام سے ’پیچھے ہٹنے‘ لگی

یہ اچھا خیال نہیں ہوگا کہ نگران وزیراعظم کا تعلق حکمران جماعت سے ہو جبکہ عوام بھی اس انتخاب پر اعتراض کریں گے، خواجہ آصف
| |

وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار کے نگران وزیر اعظم کے لیے موزوں ترین امیدوار ہونے کے حوالے سے واضح اشارے سامنے آنے کے ایک روز بعد ہی بظاہر حکمران اتحادی جماعتوں پیپلز پارٹی اور اپوزیشن پی ٹی آئی دونوں کی جانب سے اسے مکمل طور پر مسترد کیے جانے کے تناظر میں مسلم لیگ (ن) اس خیال سے پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی وفاقی وزیر نے اس طرح کی اطلاعات کو ’جھوٹ‘ پر مبنی قرار دیا۔

پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ اسحٰق ڈار کے حوالے سے خبر ایک معتبر صحافی نے ’لیک‘ کی لیکن اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

وزیر دفاع نے ان خبروں کی بھی تردید کی جن میں کہا گیا کہ حکومت اسحٰق ڈار کو عبوری وزیر اعظم بنانے کے لیے غور کر رہی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے پر ابھی کام شروع بھی نہیں ہوا اور اس بارے میں ان کے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ یہ اچھا خیال نہیں ہوگا کہ نگران وزیراعظم حکمران جماعت سے آئے جب کہ عوام بھی اس پر اعتراض کریں گے۔

دوسری جانب معیشت پر پی ٹی آئی کے فوکل پرسن مزمل اسلم نے کہا کہ حکومت نے بہترین معیشت کو برباد کرنے کے بعد اسحٰق ڈار کو نامزد کر کے اپنے ارادے واضح کر دیے۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ حکومت آئندہ انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے کسی بھی طرح اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کے لیے بنیادی ذمہ دار اسحٰق ڈار ہیں جنہوں نے آئی ایم ایف پروگرام کامیاب ہونے سے روکنے کے لیے تمام ممکنہ رکاوٹیں کھڑی کیں، تاکہ اپنی حکمرانی کو طول دینے کے لیے مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکیں۔‘

مزمل اسلم نے کہا کہ برسراقتدار حکمران ٹولہ گزشتہ 14 ماہ سے مختلف ڈرامے کر رہا ہے، انہیں ریاست کے مفادات کی کوئی پروا نہیں ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں فیصل کریم کنڈی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر شیری رحمٰن نے کہا تھا کہ اس وقت بڑی قیاس آرائیاں چل رہی ہیں، خاص طور پر نگران حکومت، نگران وزیراعظم اور اس کے لیے مشاورت کے حوالے سے قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ وضاحت سے کہنا چاہتی ہوں کہ قیاس آرائیاں ضرور ہو رہی ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے حوالے سے دو باتیں بار بار کہہ دیں گئی ہیں لیکن ہمارے ساتھ کوئی نام شیئر نہیں ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کے چند حلقوں نے ایسی خبریں چلائی ہیں کہ جیسے چند نام پکے ہوگئے ہیں اور طے ہوگیا لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ ہمارے ساتھ اس سطح کے نہ تو نام شیئر ہوئے ہیں اور نہ پی پی پی کی طرف سے کوئی فیصلے آئے ہیں۔

شیری رحمٰن نے کہا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی پی پی نے وہی پوزیشن رکھی ہے جو پہلے تھی، وہ ہماری آئین میں منجمد جمہوری پوزیشن ہے کہ نگران حکومت غیر جانبدار ہو تو بہتر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ایسا کوئی مطلب نہیں ہے کوئی ہو یا نہ ہو مگر ایسی خبریں چلائی گئی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے تقریباً کابینہ پوری کردی ہے تو ایسا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ یہ ایک مشاورتی اور آئینی عمل ہوتا ہے اور 18ویں ترمیم کے بعد اس میں خاصی شفافیت بھی آگئی ہے، اس میں اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم ہوتے ہیں اور اتحاد کے باہر بھی جماعتیں ہوتی ہیں، یہ کوئی ایک یا دو جماعتوں کا فیصلہ نہیں ہوتا ہے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ انتخابات میں ویسے بھی غیر جانبداری چاہیے ہوتی ہے، ابھی کوئی بات حتمی نہیں ہوئی اور نام کا تبادلہ نہیں ہوا لیکن یہاں لمبی لمبی فائنل خبریں چلیں جس کو میں وضاحت سے کہوں گی کہ آج ان کو ’فیک نیوز‘ کا تاج پہنایا جا رہا ہے۔

میڈیا میں نگران وزیراعظم کے نام کے حوالے سے گردش کرنے والی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سب فیک نیوز ہیں، کوئی ایسا معاہدہ نہیں ہوا، کوئی ایسی بات نہیں ہوئی ہے کہ کوئی نام حتمی ہوا ہو کم از کم ہماری طرف سے تو نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا تھا کہ تین رکنی کمیٹی بنی ہے اور مشاورت میں جو باتیں شروع ہوں گی وہ قیادت کو بتادیں گے اور جو بھی نام ہوں گے وہ بتادیے جائیں گے لیکن ابھی کچھ طے نہیں ہوا ہے۔

شیری رحمٰن نے کہا تھا کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ نام ہی شیئر نہیں ہوئے تو کس طرح آپ کہیں گے کہ فلاں کا نام ہوگیا یا کسی کا نام ہوگیا ہے، ایسا نہیں ہے، گزارش ہے کہ قیاس پر بات نہ کریں اور واضح ہے کہ کسی نام کا تبادلہ نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے وقت پر انتخابات کرانے کی بات کی ہے اور مطالبہ کیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں اسی میں ملک کی بہتری ہوگی، اس پر بھی کوئی تاریخ نہیں دی گئی ہے، باتیں چل رہی ہیں، کون تاخیر اور کون جلدی چاہتا ہے، یہ ابہام ختم کرنے کے لیے یہ کہنا ضروری ہے کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ چاہے آصف زرداری ہوں یا چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہوں، سب نے یہی کہا ہے کہ انتخابات وقت پر آئینی مدت کے اندر ہوں۔

انہوں نے کہا تھا کہ کوشش ہو کہ الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کے ساتھ انتخابات میں جائیں اور سب کو یکساں موقع ملنا چاہیے۔

وزیر موسمیاتی تبدیلی نے ایک دفعہ پھر واضح کیا تھا کہ نگران وزیراعظم کے لیے کسی نام پر اتفاق نہیں ہوا لیکن اتفاق ضرور ہوگا مگر اس کے لیے وقت لگے گا کیونکہ مشاورت کے لیے کئی جماعتیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری طرف سے بھی تاحال کوئی نام نہیں دیا گیا ہے، ابھی ایک دوسرے کی باتیں سن رہے ہیں۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن ایکٹ کمیٹی میں ہے، ترامیم سب کی مشاورت سے ہوں گی، یک طرفہ قدم نہیں اٹھایا جا رہا ہے لیکن قیاس کی بنیاد پر خبریں نہ پھیلائی جائیں خاص طور پر پی پی پی کے حوالے سے لوگ بیٹھے ہیں، ان سے بات کریں۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں سامنے آنے والی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو نگران وزیراعظم بنانے کے لیے نام تجویز کیا ہے اور پی پی پی نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا ہے۔

اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا تھا کہ اگر تمام اتحادی جماعتیں اور اپوزیشن متفق ہو جائیں تو اسحٰق ڈار نگران وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر اسحٰق ڈار پر تمام جماعتیں اور اپوزیشن اتفاق کرتی ہے تو وہ بھی نگران وزیراعظم ہو سکتے ہیں، کوئی اور بھی ہو سکتا ہے، میں نہ کسی کو شامل کر رہا ہوں نہ ہی کسی کو نکال رہا ہوں، جس پر بھی سب کا اتفاق رائے ہوگا اس نام پر اتفاق ہوجائے گا۔

پیٹرولیم ڈیلرز مارجن میں 1.64 روپے اضافے کا فیصلہ

سعودی فٹ بال کلب کی ایمباپے کیلئے 30 کروڑ یورو کی ریکارڈ بولی

شادی کو کامیاب بنانا اور چلانا فن ہے، جسے سیکھنے کی ضرورت ہے، طوبیٰ انور