نقطہ نظر

اوپن ہائیمر: وہ سائنسدان جو جذبات اور عقل دونوں کو پیش نظر رکھتا تھا

بم بنانےکی محبت سے لے کر بم سے نفرت کرنے تک کی کہانی ہی اس فلم کی کہانی ہے۔

انسانی تاریخ میں دوسری عالمی جنگ ایک المیہ تھی، ایسا خوفناک سانحہ جس کے رونما ہونے میں لاکھوں جانوں کا زیاں ہوا۔ اس قیامت خیز گھڑی کو دنیا نے جاپان پر گرتے ہوئے دو ایٹم بموں کی شکل میں دیکھا جنہوں نے دو شہر راکھ کردیے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس راکھ سے جاپانیوں نے نئی زندگی حاصل کی لیکن دنیا بھر میں اس آگ کی تپش آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔ یہی وہ جولائی کا مہینہ تھا، جب 16 جولائی 1945ء کو یہ ایٹم بم تیار کیے گئے اور اگلا مہینہ وہی اگست ہے جب 6 اگست اور 9 اگست 1945ء کو یہ بم ہیروشیما اور ناگاساکی پر برسائے گئے۔

اب انہی مہینوں میں یہ فلم دنیا بھر میں نمائش کے لیے پیش کی گئی ہے، ایک سانحے کی یاد میں اور ضمیر کی چیخ کے طور پر، یہ فلم نہیں ایک یاددہانی ہے۔ یہ فلم اپنے موضوع کے اعتبار سے اور تکنیکی و فنی حوالوں سے یادگار رہے گی۔کچھ بعید نہیں کہ یہ رواں برس کی سب سے بڑی فلم ہو، ایک ایسی فلم جو آسکر ایوارڈز میں بھی اپنے باکس آفس کی طرح فاتح ثابت ہو۔ اس شاندار فلم کا تفصیلی تجزیہ وتبصرہ پیش خدمت ہے۔


اوپن ہائیمر کون تھا؟


دوسری عالمی جنگ کی ابتدا جرمنی سے ہوئی۔ یہ وحشیانہ جنگ و جدل مزید یوں بھڑکا کہ اس جنگ کی آگ پھر پوری دنیا میں پھیل گئی۔ امریکا کے اس یہودی النسل معروف سائنسدان کا نام ’جولیس رابرٹ اوپن ہائیمر‘ تھا جس نے امریکا میں وہ دو ایٹم بم تیار کیے جن کو جنگ میں استعمال کرتے ہوئے جاپان پر آزمایا گیا۔

امریکا میں پیدا ہونے والے اس یہودی سائنسدان نے اپنی اس ایجاد سے دنیا کی تاریخ بدل دی۔ امریکا اور اس کے حلیف ہاری ہوئی جنگ جیت گئے۔ نظری طبیعیات دان نے کیسے اپنے افکار کو ’مین ہٹن منصوبے‘ کے ذریعے عملی شکل دی اس موضوع کو متعدد بار کتابوں اور فلموں کا موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کے والدین کا تعلق جرمنی سے تھا، یہ بھی اپنے آبائی وطن کی محبت میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے جرمنی گیا اور گوٹنگن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرکے واپس لوٹا۔

اس کی زندگی میں تین ہی مرکزی حوالے رہے،طبیعات ،محبوبہ اور بیوی۔ یہ ان تینوں دائروں میں زندگی بسر کرتے ہوئے کامیابی کی معراج کوپہنچا اور یاسیت کے اندھیروں سے بھی نکلا۔ ایک طرف اسے امریکی عوام کی بے پناہ محبت حاصل ہوئی تو دوسری طرف وہ اہل اقتدار کے ہاتھوں رسوا بھی ہوا، شاید جاپانی عوام بھی اسے ناپسند کرتے ہوں گے۔

بم بنانےکی محبت سے لے کر بم سے نفرت کرنے تک کی کہانی ہی اس فلم کی کہانی ہے جس کو ایک کتاب ’امریکن پرومیتھیس‘ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کو دو مصنفین کائی برڈ اور مارٹن جے شیرون نے مل کر لکھا۔ برطانوی نژاد امریکی فلم ساز کرسٹوفر نولن نے اسی کتاب کو اپنی فلم کے اسکرپٹ میں ڈھالا اور اب یہ فلم آپ کے سامنے موجود ہے جو اوپن ہائیمر کی زندگی کے تمام نشیب و فراز کو بیان کررہی ہے۔


ہدایت کار نے یہ فلم کیوں بنائی؟


اس فلم کے ہدایت کار کرسٹوفر نولن اب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں وہ ایکشن سے بھرپور، تیز رفتار فلمیں بنانے کے ماہر ہیں۔ وہ خود کو ٹیکنالوجی سے دور رکھتے ہیں حتیٰ کہ اپنی روزمرہ زندگی میں بھی انتہائی سادہ فون استعمال کرتے ہیں اور اپنی فلموں کو بھی ٹیکنالوجی سے دور رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ ان کی حتیٰ الامکان یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی فلموں میں ویژول ایفیکٹس اور گرافکس کا استعمال کم سے کم کریں۔

انہیں اسٹریمنگ پورٹل کے ذریعے فلمیں ریلیز کرنا بھی پسند نہیں ہے۔ وہ اس طبقے میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے تھیٹر کی بقا اور بڑی اسکرین کی محبت میں کھلے عام احتجاج کیا جس کی وجہ سے انہیں کاروباری طور پر مالی نقصانات بھی اٹھانا پڑے لیکن وہ اپنے موقف پر قائم رہے۔

کرسٹوفر نولن اپنی فلموں کی اکثر کہانیاں خود لکھتے ہیں ان کی گزشتہ معروف فلم ’ٹینٹ‘ جب ریلیز ہوئی، تو انہیں اس فلم کے پروڈیوسر چارلس روون نے، اوپن ہائیمر کی سوانح عمری ’امریکن پرومیتھیس‘ بطور تحفہ پڑھنے کے لیے دی۔ ہمارے ہاں توعام طور پر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ کتاب کا وجود اب ختم ہوگیا ہے لیکن مغربی دنیا میں ایسا نہیں ہے۔

یعنی زیرِنظر فلم کے پس منظر میں ایک کتاب بھی محرک بنی ہے، ایک ایسی کتاب جسے لکھنے میں مصنفین نے بھی کئی دہائیاں صرف کردیں، پھر جب وہ کتاب شائع ہوئی تو قارئین نے اس کو عالم گیر پذیرائی دی۔ مذکورہ فلم بھی اسی پذیرائی کا ایک اظہار ہے کہ فلم ساز کرسٹوفر نولن نے جب یہ کتاب پڑھی تو وہ تھوڑا بہت اوپن ہائیمر کے بارے میں جانتے تھے لیکن یوں سمجھیں کہ اس کتاب نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور وہ فوری طور پر اس کہانی کو فلمانے کے لیے تیار ہوگئے۔

ہرچند کہ اس موضوع پر کئی دستاویزی فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں مگر کرسٹوفر نولن اس کو اپنے تخلیقی انداز میں ایک تفصیلی سوانح عمری کو بیان کرتی فلم کے طور پر سوچنا چاہتے تھے، پھر وہ ایسا کر بھی گزرے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی شاندار فلم ’ڈنکرک‘ بناکر اس فلم کی مشق کرلی تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ اس کہانی کو جنگی پس منظر میں بہترین طور سے پیش کرسکے۔


فلم کا پروڈکشن ڈیزائن


یہ مذکورہ فلمی اصطلاح ’پروڈکشن ڈیزائن‘ اصل میں ’اوپن ہائیمر‘ جیسی فلموں کے لیے ہی تخلیق کی گئی ہے۔ اس فلم کے حقوق کے لیے بھی فلم ساز اداروں کے درمیان ایک جنگ کی سی کیفیت برپا ہوئی اور آخرکار ’یونیورسل پکچرز‘ کے نام یہ قرعہ نکلا۔ فلم ساز کرسٹوفر نولن نے ان کے سامنے کئی شرطیں رکھیں جن میں سرفہرست بات یہ تھی کہ اس فلم کی ریلیز سے تین ہفتے پہلے اور تین ہفتے بعد اس ادارے کی کوئی اور فلم ریلیز نہیں ہوگی۔ یہ اپنی نوعیت کی مختلف منفرد شرط تھی جس پر فلم ساز ادارہ متفق ہوا۔ اس کے علاوہ مذکورہ فلم کے صرف 3 مرکزی پروڈیوسرز ہیں جن میں ایما تھامس اور چارلس روون کے علاوہ خود کرسٹوفر نولن بھی پروڈیوسر ہیں اور یہ فلم پاکستان سمیت پوری دنیا میں مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کررہی ہے۔

اس فلم کے لیے جدید ترین کیمروں کا استعمال کیاگیا اور یہ فلمی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ بیک وقت فلم رنگین اور بلیک اینڈ وائٹ ہے۔ فلم ساز نے کہانی کی موضوعیت اور مقصدیت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ فرق تخلیق کیا۔ اس طرح ماضی کو بلیک اینڈ وائٹ جبکہ مرکزی کردار کی حالیہ زندگی کو رنگین سے منعکس کیاگیا۔ فلم ساز نے اوپن ہائیمر کی ظاہری زندگی اور باطنی کیفیات کو بھی الگ الگ کرکے دکھایا جس میں رنگوں کی اس تفریق نے انتہائی مثبت اثرات مرتب کیے۔

اس فلم کی عکاسی میں بہت سارے مقامات جہاں اوپن ہائیمر نے اپنی زندگی کے دن بسر کیے کو فلم کاحصہ بنایا گیا ہے۔ ان میں ان کے تعلیمی ادارے اور رہائش گاہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس فلم کی عکس بندی کے لیے جدید کیمروں، جن میں ’آئی ایم ایکس سکسٹی فائیو ایم ایم‘ کو لارج فارمیٹ پر استعمال کیاگیا۔ اس کے لیے کوڈیک کمپنی نے خصوصی طور پر سافٹ ویئر تیار کیا،جس کو ’فوٹو کیم‘ کہا جاتا ہے۔

ایٹم بم کے تجربے کا منظر اور اس سے متعلق دیگر مناظر میں جس طرح فلم ساز نے تخلیقی تکنیک کو استعمال کیا ہے وہ قابل تعریف ہےکیونکہ اکثر مناظر بغیر کسی بصری اثرات کے عکس بند ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر تجربہ گاہ میں بم دھماکے کی عکس بندی کے لیے ایک خاص سیٹ ڈیزائن کیاگیا، بم پھٹنے کے مناظر میں جن چیزوں کو استعمال کیا گیا ہے ان میں گیسولین، پروپین، المونیم پاوڈر اور میگنیشم شامل ہے۔ ان فوٹیجز کے ساتھ ساتھ پھر ویژول ایفکیٹس کا محدود استعمال بھی کیا گیا ہے۔ اس تجربہ گاہ کے مناظر میں ایک منظر ایسا ہے جس میں ایک بچی اپنی ماں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہے، یہ کرسٹوفر نولن کی حقیقی بیٹی ہے۔

اس فلم کی موسیقی جس کا دورانیہ ایک گھنٹے سے بھی زائد ہے، اس کو پوری فلم میں جذبات کی نکاسی کے لیے بخوبی استعمال کیا ہے۔ پس منظر کی موسیقی اس فلم کی جان ہے جس نے مناظر کی شدت کو بڑھایا اور گھٹایا ہے۔ جس باصلاحیت موسیقار نے یہ شاندار موسیقی ترتیب دی ہے اس کا نام لڈوِگ گورنسن ہے۔

اس فلم کا بجٹ 100 ملین ڈالر تھا جس کو وہ اپنی نمائش کے بعد دو دن میں ہی وصول کرچکی ہے۔ اب یہ جتنے دن بھی نمائش پذیر رہے گی وہ اس کا منافع ہوگا۔ کون کہتا ہے کہ کمرشل سینما میں تخلیقی انداز سے بھی کام کرتے ہوئے پیسے نہیں کمائے جاسکتے ہیں۔ مگر یہ بات ہمارے مقامی فلم سازوں کو سمجھ میں ابھی تک نہیں آئی۔ وہ کمرشل اور کریٹیو سینما کو الگ الگ کرکے دیکھتے ہیں۔ اس فلم نے اپنی مدمقابل فلم ’باربی‘ کو بھی باکس آفس پر ٹف ٹائم دیا ہے اور مقبولیت میں بھی تیزی سے اس کو پیچھے چھوڑ رہی ہے۔کمرشل کو کریٹیو کرلیا جائے توپھر ہی اوپن ہائیمر جیسی فلم بنتی ہے۔


ہدایت کاری


پانچ مرتبہ آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہونے والے اس فلم ساز کرسٹوفر نولن کو شاید اپنی اس فلم پر بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ مل جائے گا کیونکہ فلم کا معیار تو ہمیں یہی بتارہا ہے۔ وہ بطور ہدایت کار اپنے کام سے بہت مخلص ہیں، اپنی کہانیوں پر بھرپور توجہ سے کام کرتے ہیں، پھر انہیں فلمانے کے لیے بھی نئے نئے تخلیقی زاویے تلاشتے رہتے ہیں۔ اس فلم کی کہانی، انہوں نے چند مہینوں میں لکھی اور پھر اس کو عکس بند کرلیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ کُل ڈیڑھ برس میں پوری فلم تیار کرلی۔

اس فلم کے لیے جہاں جہاں اور جیسے ضرورت محسوس ہوئی اس کے مطابق کام کیا۔ مثال کے طور پر مرکزی کردار کے لیے آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ اداکار کیلین مرفی کی شکل میں انہوں نے اپنی فلم کا مرکزی کردار اوپن ہائیمر دیکھا تو بلاجھجھک اس کو فون کیا اور پھر اس کے پاس اسکرپٹ سنانے پہنچ گئے۔

اسی طرح کئی دیگر بڑے اداکاروں کو اس بات پر راضی کیاکہ وہ اس فلم کے لیے اپنی فیس میں کچھ کٹوتی کریں،جنہوں نے کرسٹوفرنولن کی محبت میں یہ بھی کیا،کیونکہ کوئی بھی اس سنہری موقع کو ضائع نہیں کرناچاہتا تھا کہ وہ ایسے ذہین فلم ساز کے ساتھ کام نہ کرے۔

یہاں مجھے ایک سوال بہت پریشان کررہا ہے کہ اس ہدایت کار نے جس طرح ایک ضمیر کے کچوکے کھاتے ہوئے سائنسدان کو جذباتی سہارا دیا، اس کی شخصیت کو کلین چٹ دینے کی کوشش کی، اس کے باوجود کہ اس کے بنائے ہوئے بموں سے بے شمار معصوم جانیں ضائع ہوئیں پھر بھی ان کا فلم ساز اس کے نظریاتی اور اساسی تصور کو محفوظ بنارہا ہے۔ نہ جانے کیوں مجھے اس فلم کو دیکھتے ہوئے اپنے دو طبیعات دان بھی بہت یاد آئے جن کے نام ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر عبد القدیر خان ہیں۔ تو کیا کبھی ہمارا کوئی فلم ساز اسی طرح ان دونوں کی نظریاتی و علمی ،ذاتی زندگی کو بیان کرسکے گا؟


کہانی/اسکرین پلے


اس فلم کی کہانی کا آدھا کام تو جرمن نژاد امریکی سائنسدان کے سوانح نگاروں کائی برڈ اور مارٹن جے شیرون نے کردیا تھا۔ اس کو سینما کے لیے تشکیل دینے کی خاطر، کرسٹوفرنولن نے ازسرنو کہانی کو تخلیق کیا مگر کہانی کا بنیادی ڈھانچہ وہی تھا جو دونوں سوانح نگاروں نے جو اپنی کتاب میں تصنیف کیاتھا۔ البتہ سینما کی ضرورتوں کے مطابق اس میں تبدیلیاں کی گئیں اور مکالمات کی صورت میں کہانی کو مزید مضبوط کیا گیا۔ مرکزی کردار اوپن ہائیمر کی ظاہری اور باطنی زندگی کی تقسیم بھی دکھائی گئی کہ ایک ایسا سائنسدان جو جذبات اور عقل دونوں کو پیش نظر رکھتا تھا۔ اس نے جہاں سائنس سے دل لگایا وہیں اپنی پہلی محبوبہ سے دوسری محبوبہ تک جو اس کی بیوی بنی اس نے ٹوٹ کر انہیں چاہا۔

دونوں محبوبائیں، اشتراکی پس منظر کی حامل تھیں۔ وہ خود اور اس کا ایک بھائی بھی اشتراکی نظریات سے کسی حد تک متاثر تھا۔ محبت کے راستے پر وہ اشتراکی خیالات رکھنے والی محبوباؤں کی طرف مائل ہوا اور اس میں کسی حد تک مبتلا بھی ہوتاچلا گیا۔ ان میں ایک شادی کرکے اس کی زندگی میں ہمیشہ کے لیے آگئی تو دوسری نے خودکشی کرکے ہمیشہ کے لیے خود کو اس سے دور کرلیا۔ اس دوہری محبت نے اوپن ہائیمر کی زندگی میں تنہائی کا مزید زہرگھولا جس کو اس نے کبھی سنسکرت زبان سیکھنے میں مدغم ہوکر فراموش کرنا چاہا تو کبھی فزکس کے فارمولوں کی گھتیاں سلجھانے میں اس غم کو غلط کیا۔

یہی محبت اور انسانیت سے جڑا ہوا احساس تھا جس نے ایٹم بم تخلیق ہوجانے کے بعد اس کو کامیابی کی خوشی منانے کی بجائے انسانوں کے خون میں رنگاہوا دکھایا۔اس نے امریکی صدر سے ملاقات میں اپنے اس احساس کو بیان کیا جس پر انہوں نے اس سائنسدان کو اس مجرمانہ کیفیت سے مکتی دلانے کی کوشش کی مگر اوپن ہائیمر نہ مانا اور پھر ساری زندگی بم بنانے کی صنعت کا مخالف رہا، بلکہ ہائیڈروجن بم بنانے کی کھلم کھلا مخالفت کی۔

اس سب کے نتیجے میں اسے شہرت اور مقبولیت کے ساتھ ساتھ اذیت بھی ملی۔ اس پر شک کیا گیا، امریکا کے ایٹمی کمیشن اور حکومتی اداروں نے اس پر سوالات داغے، اس کی حب الوطنی کو شکوک کی آگ میں ڈالا گیا۔ یہی وہ کیفیات تھیں جس میں اوپن ہائیمر نے صرف ایٹم بم کی آگ میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو جلتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ ان چہروں اور الزامات کو بھی اسی آگ میں بھسم ہوتے دیکھا جس کو فلم ساز نے پردے پر دکھانا ممکن بھی کردیا۔ یہ جذبات کا مدوجزر دیکھے جانے اور محسوس کرنے کے قابل ہے۔

ایک ساتھ تین کہانیاں اسکرین پر رواں ہوتی ہیں وہ بھی یہ محسوس کروائے بغیر کہ یہ ایک دوسرے سے الگ سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ ایک وہ کہانی ہے جو رنگین ہے اور اوپن ہائیمر نے خود بسر کی یعنی زمانہ طالب علمی سے لے کر طالب علموں کو اپنے علم سے فیض یاب کرنے، معروف طبیعات دان آئن اسٹائن سے ملاقات اور امریکی فوجی ہیڈکواٹر پینٹاگون کی تشکیل کرنے والے فوجی افسر لیسلی گرووز کی پیشکش پر مین ہٹن پراجیکٹ کی سربراہی قبول کرنے، دنیا کاپہلا ایٹم بم بنانے سے لے کر کئی محبتوں میں مبتلا ہونے کی کہانی ہے۔

دوسری کہانی امریکی اٹامک انرجی اورحکومتی خفیہ اداروں کی تفتیش کا سامنا کرنے کی بلیک اینڈ وائٹ کہانی ہے۔تیسری کہانی اوپن ہائیمر کی ذات کی کہانی ہے جس کو اس وقت کے امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین نے ’روتا ہوا بچہ‘ کہا اور یہ بات ٹھیک تھی، اوپن ہائیمر کے اندر کا بچہ پھوٹ پھوٹ کر رورہا تھا کہ اس کی ایجاد نے لاکھوں لوگوں کی جان لے لی۔

اوپن ہائیمر نے عوامی سطح پر کبھی معافی تو نہ مانگی لیکن وہ اپنی اس ایجاد کے پچھتاوے میں مبتلا ضرور دکھائی دیے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی عوامی مقبولیت اور شہرت بھی ضائع کردی بلکہ خود کو مشکلات میں پھنسا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں آنے والے ایک امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے ان کے غموں کا مداوا کیا مگر یہ مرہم اس زخم کو بھرنے کے لیے کم تھا۔

اوپن ہائیمر کے دونوں سوانح نگاروں اور کرسٹوفر نولن نے کہانی کو اتنے اچھے انداز میں قلم بند کیا کہ وہ واقعی اپنی مثال آپ ہے، اس کہانی نے ایسا لگتا ہے کہ اوپن ہائیمر کے ضمیر کا بوجھ ہلکا کردیا، وہ اس ضمیر کی قید میں تھے، شاید اس فلم کے بعد انہیں اپنی قید سے رہائی مل گئی ہو۔ وہ عالم بالا میں اب خوش ہوں گے۔ اس اسکرین پلے کی یہ بھی خوبی ہے کہ جہاں مکالمے نہیں ہیں وہاں بھی کردار اپنے تاثرات کی زبانی بات کررہے ہیں، یہ بھی کیا کمال بات ہے۔


اداکاری


فلم کے مرکزی کردار کیلین مرفی نے اپنے کرئیر کی شروعات کے بعد ایک طویل عرصے تک کسی اخبار اور ٹیلی وژن کو انٹرویو نہ دیا کیونکہ وہ عوام کے سامنے آنے سے ہچکچاتے تھے. ان کا یہ رویہ عام اداکاروں سے مختلف تھا، بہرحال دھیرے دھیرے انہوں نے اپنی اس عادت پر قابوپایا، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اس مختلف رویے کی وجہ سے فلم ساز کرسٹو فر نولن کے ساتھ اپنے ستارے ملانے میں کامیاب ہوئے،کیونکہ دونوں منفرد مزاج کے مالک ہیں۔ یہ فلم دونوں کے فن کی معراج ہے، شاید ان دونوں نے اپنے کرئیر کا بہترین کام اس فلم میں کردکھایا ہے۔

مجھے یہ دیکھنے میں پہلی بار محسوس ہوا کہ بڑی اسکرین پر رابرٹ ڈاؤنی جونیر جیسے اداکار کے لیے کیلین مرفی نے سخت مقابلے کی فضا قائم کی۔ یہ تاثر اتنا گہرا ہوا کہ میٹ ڈیمن، ایملی بلنٹ، فلورنس پگ اور دوسرے ساتھی فنکار اس شدت کی تاب نہ لاسکے، اکثریت نے متاثرکن اداکاری کی لیکن وہ کیلین مرفی کے سامنے ماند پڑگئے۔ یہی وجہ ہے کہ فلم بین بھی اس شاندار اداکاری کے سحر میں کھو سے گئے کہ تین گھنٹے کی طویل فلم بھی ان میں اکتاہٹ پیدا نہ کرسکی۔ رواں برس کے آسکر ایوارڈز میں بہترین اداکار کا ایوارڈ کیلین مرفی کے علاوہ کسی اور کو ملنا مکمل نا انصافی ہوگی۔

اداکاروں کی اس فلم ساز کے لیے محبت اور عقیدت کا سلسلہ یہیں تک محدود نہیں ہے۔ اس فلم میں فوجی افسر لیسلی گرووز کا کردار نبھانے والے معروف امریکی اداکار میٹ ڈیمن ان دنوں میں چھٹیوں پر تھے جب اس فلم کو بنانے کا فیصلہ ہوا۔ وہ اپنی بیوی سے یہ وعدہ کرچکے تھے کہ وہ اب کچھ عرصہ چھٹی منائیں گے اور کسی فلمی پیشکش کو قبول نہیں کریں گے سوائے اس کے اگر ان کو کرسٹوفرنولن نے یاد نہ کیا۔ پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، انہیں کرسٹوفر نولن نے اس فلم کے لیے یاد کرلیا اور ان کو اپنی چھٹی ختم کرنا پڑی اور ان کی بیگم بھی اس موقع پر کچھ نہ کہہ سکیں۔


حرف آخر


قارئین یہ بات ذہن کے کسی کونے میں محفوظ کرلیں کہ کچھ فلمیں صرف بنتی ہی ’بڑی اسکرین‘ اور سینما ہالز کے لیے ہیں، انہیں اپنے لیپ ٹاپ یا موبائل پر دیکھنا بے ادبی ہوتی ہے۔ مذکورہ فلم ’اوپن ہائیمر‘ کا شمار بھی انہی فلموں میں ہوتاہے جن کی وجہ سے تھیٹر ہالز آباد رہیں گے اور بھلے آن لائن اسٹریمنگ پورٹلز کی تعداد کتنی ہی بڑھ جائے، ان کی مقبولیت میں بھلے بے پناہ اضافہ ہوجائے لیکن ’اوپن ہائیمر‘ جیسی فلمیں، فلم بین کو میری طرح سینماہال کی طرف کھینچ کریوں لائیں گی کہ وہ پاکستان میں اس فلم کے پہلے شو کو دیکھنے کی غرض سے صبح سویرے چائے پی کر انتظارہ گاہ میں موجود تھا دیگر بہت سارے لوگوں کی طرح جن کے دن کا بھرپور آغاز اسی فلم کو دیکھنے سے ہی ہونا تھا۔

اس لیے اگرآپ نے ابھی تک فلمی دنیا میں اپنی صبح کی ابتدا نہیں کی تو جائیے ایک شاندار مغنی فلم ساز کی یہ شاندار فلم آپ کی سماعت، بصارت اور داد کی منتظر ہے اور عدم کی دنیا میں اوپن ہائیمر بھی خوش ہوں گے کہ بقول شاعر

مٹائے گا مجھ کو عدم کیا کوئی
محبت مرا سنگ بنیاد ہے
خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔