پاکستان

حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کو آئندہ عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کا خدشہ

عبوری سیٹ اپ انتخابی عمل کے لیے صحیح وقت کا تعین اور یہ طے کرے گا کہ اس کے انعقاد کے لیے مزید وقت درکار ہے یا نہیں، مولانا فضل الرحمٰن
|

حکمران اتحاد میں شامل 2 اہم اتحادی جماعتوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیر ہو سکتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کو خدشہ ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری اور حلقہ بندی پر اختلاف رائے انتخابات میں تاخیر کا سبب بن سکتا ہے، جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اس بات پر قائل نہیں ہیں کہ انتخابات وقت پر ہوں گے، حتیٰ کہ اگر پی ڈی ایم اتحاد اقتدار کی باگ ڈور کسی نگران سیٹ اپ کے حوالے کر دے تب بھی انہیں ایسا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔

گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ موجودہ سیاسی اور معاشی بحران سے نکلنے کا واحد حل بروقت انتخابات ہیں۔

یاد رہے کہ مردم شماری کا معاملہ اس وقت متنازع ہوا جب وفاقی وزرا نے واضح طور پر کہا کہ آئندہ عام انتخابات (جو کہ اکتوبر یا نومبر میں متوقع ہیں) رواں برس کے شروع میں ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری کی بنیاد پر نہیں ہوں گے۔

دریں اثنا حکمران اتحاد میں شامل ایک اور اتحادی ایم کیو ایم (پاکستان) نے تازہ ترین مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔

فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ اگر اس مرحلے پر مردم شماری کا مسئلہ اٹھایا گیا تو انتخابات میں تاخیر ہو جائے گی، بہتر ہے کہ پچھلی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کرا دیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا واضح مؤقف ہے کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں جس کے بعد نگران حکومت اور الیکشن کمیشن 60 دن کے اندر انتخابات کرائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انتخابی مہم کے لیے 2 ماہ کافی ہیں لیکن اگر اتحادی جماعتیں انتخابی مہم کے لیے 90 دن چاہتی ہیں تو پیپلز پارٹی اس کے لیے تیار ہے۔

ایک سوال کے جواب میں فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے پر زور دیا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو پیغام دیا کہ انتخابات 60 روز کے اندر کرائے جائیں۔

دوسری جانب سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمٰن بھی اس بات کی ضمانت دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں کہ انتخابات وقت پر ہوں گے، جس کے انعقاد کی ذمہ داری وہ آنے والی نگران حکومت پر ڈالتے ہیں۔

جی ڈی اے کے سربراہ سید صدرالدین شاہ کی رہائش گاہ کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ عبوری سیٹ اپ انتخابی عمل کے لیے صحیح وقت کا تعین اور یہ طے کرے گا کہ اس کے انعقاد کے لیے مزید وقت درکار ہے یا نہیں۔

آنے والے انتخابات کے امکانات کے بارے میں ان کی بے یقینی اُس وقت اُن کے خیالات میں بھی جھلکی جب انہوں نے میڈیا سے اپنی مختصر گفتگو کے دوران اس حوالے سے ایک سوال کا طنزیہ جواب دیا۔

پاک فوج کی زیرِ نگرانی انتخابات کرانے کے مطالبے پر اُن کا مؤقف جاننے کے لیے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پہلے انتخابات کے انعقاد اور وقت کا فیصلہ کرلیں، اس وقت یہ مسئلہ نہیں ہے کہ اسے کس کی نگرانی میں منعقد کرایا جانا چاہیے۔

قبل ازیں آئندہ عام انتخابات کے متوقع شیڈول کے بارے میں سوال کے جواب میں سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ یہ ہمارا معاملہ نہیں ہے، ہم (پی ڈی ایم) حکومت چھوڑ دیں گے اور اسمبلیاں بروقت تحلیل ہو جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنا کام آئین کے مطابق کرنا ہے، پھر نگران سیٹ اپ آئے گا جسے انتخابات سے متعلق معاملات کو دیکھنا ہوگا، یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے، اس کا فیصلہ نگران حکومت کو کرنا ہے، اپنی جانب سے ہم انتخابات کے لیے تیار ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں سربراہ جے یو آئی (ف) نے عمران خان کو ’قصہ ماضی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں مزید سنجیدہ گفتگو کا حصہ نہیں بنانا چاہیے۔

انہوں نے سابق وزیر اعظم پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ عمران خان نے آئی ایم ایف کو قومی ادارے بیچ دیے تھے جو کہ پی ڈی ایم حکومت کے لیے معاشی چیلنجز کا سبب بنا۔

حکومت نے بجلی فی یونٹ 7 روپے 50 پیسے تک مزید مہنگی کرنے کی منظوری دے دی

زمانہ طالب علمی میں نورجہاں کی تصویر والا رسالہ چھپا کر لایا، رفیع اور لتا کو سنتا تھا، طارق جمیل

روس کا یوکرین پر کلسٹر بموں کے استعمال کا الزام، حملے میں ایک صحافی ہلاک