دنیا

افغانستان میں بیوٹی سیلون پر پابندی، ہزاروں خواتین کی بے روزگاری کا خدشہ

بیوٹی سیلون کے کاروبار پر پابندی سے افغانستان میں 60ہزار خواتین بیروزگار ہو جائیں گی اور مزید 12ہزار کاروبار بھی بند ہونے کا خدشہ ہے، رپورٹ

گزشتہ 8سال سے مرزیا ریاضی افغانستان میں خواتین کے لیے مخصوص بیوٹی سیلون سے اپنے اور اپنے خاندان کا پیٹ پال رہی ہیں جہاں انہوں نے اس کاروبار کے قیام پر 18ہزار ڈالر سے زائد خرچ کیے۔

تاہم 34سالہ خاتون اور دو بچوں کی والدہ اس وقت اپنے کاروبار سے محروم ہو گئیں جب طالبان انتظامیہ نے ملک میں بیوٹی سیلون بند کرنے کا حکم دیا اور اس حکم کا اطلاق 25 جولائی سے ہو گا۔

مرزیا ریاضی نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں کام نہیں کر سکتے، ہم یہاں اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتے۔

بیوٹی سیلون کے شعبے میں کام کرنے والی اکثر خواتین کی طرح مرزیا بھی اپنے گھر میں کمانے والی واحد فرد ہیں۔

واضح رہے کہ بیوٹی سیلون پر پابندی سے قبل بھی افغان طالبان کی انتظامیہ ملک میں خواتین پر متعدد پابندیاں لگا چکی ہے۔

بیوٹی سیلون کے کاروبار پر پابندی کے بعد افغانستان میں 60 ہزار سے زائد خواتین بیروزگار ہو جائیں گی اور اس کے نتیجے میں 12ہزار مزید کاروبار بھی بند ہونے کا خدشہ ہے جس سے پہلے سے بحرانی صورت حال سے دوچار معیشت پر مزید بوجھ پڑے گا۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی رضا عتن بائیوا نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کاروبار سے وابستہ خواتین پر شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے اور غربت میں کمی اور معاشی بحالی کی کوششوں کو شدید دھچکا لگے گا۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے رائٹرز کو بتایا کہ اس پابندی سے خواتین کی ملازمتوں میں نمایاں کمی واقع ہو گی۔

تنظیم نے بتایا کہ غیرملکی تعاون سے چلنے والی افغان حکومت کے دور میں مختلف شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد تقریباً 23 فیصد تھی۔

رپورٹ کے مطابق یہ بیوٹی سیلون نہ صرف خواتین کو مختلف سروس فراہم کرتی تھی بلکہ افغان خواتین کے لیے ایک ایسا محفوظ مقام بھی تھا جہاں وہ گھروں سے باہر بلا خوف و خطر دیگر خواتین سے ملاقات کر کے مختلف امور پر تبادلہ خیال کر سکتی تھیں۔

طالبان انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات اور افغان ثقافت کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔

خواتین کے سیلون بند کرنے کی پابندی کا اعلامیہ 4 جولائی کو وزارت اخلاقیات کی جانب سے جاری کیا گیا تھا اور اس سے قبل اسی قسم کے حکم نامے لڑکیوں کے ہائی اسکول اور یونیورسٹیوں کی بندش کے لیے بھی جاری کیے گئے تھے۔

بینکاری کے شعبے پر پابندیوں، ترقیاتی امداد میں کمی اور انسانی امداد کے حوالے سے فنڈنگ میں ممکنہ کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے طالبان انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ ملک کو امداد سے خود انحصاری کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں اور نجی شعبے میں ترقی کے ذریعے ملکی معیشت کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سینئر طالبان عہدیدار نے کہا کہ ہم خواتین کی جانب سے چلائے جا رہے کاروباروں کو مکمل سپورٹ کرتے ہیں اور انہیں تجارتی میلوں میں اس سلسلے میں باقاعدہ اسٹالز لگانے کی اجازت بھی دی تھی۔

تاہم رضا عتن بائیوا نے کہا کہ یہ پابندی طالبان انتظامیہ کی جانب سے ماضی میں کیے گئے ان وعدوں کی خلاف ورزی ہے جس میں انہوں نے کاروبار کرنے والی خواتین کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

اس پابندی کے خلاف بیوٹی سیلون میں کام کرنے والی متعدد خواتین نے اس اقدام کے خلاف احتجاج کیا تاہم مظاہرین نے بتایا کہ انتظامیہ نے ان کا پرامن احتجاج منتشر کرنے کے لیے پانی کی توپوں کا استعمال کیا۔

ایک میک اپ آرٹسٹ نے نم آنکھوں کے ساتھ رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ طالبان معاشرے سے خواتین کو ختم کر رہے ہیں، آخر ہم بھی انسان ہیں۔