آئی ایم ایف کا 4 بینکوں کی ری کیپٹلائزیشن کیلئے ’تیز کارروائی‘ کا مطالبہ
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ اسٹرکچر اصلاحات میں تاخیر ملک کے مالیاتی شعبے کے استحکام میں رکاوٹ پیدا کرسکتی ہے، جیسا کہ کم سرمائے والے 4 بینکوں کے ’مسائل حل‘ کرنے میں تاخیر ہونا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بینک کی ریزولیوشن کا مطلب ایک ایسی صورتحال میں ناکام قرض دہندہ کی تنظیم نو کرنا ہے جہاں ریگولیٹرز کا خیال ہے کہ اس کی بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کو منظور کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی ٹیم کی جانب سے 12 جولائی کو ہونے والے اپنے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کے لیے تیار کی گئی ایک تفصیلی اسٹاف رپورٹ میں واشنگٹن میں مقیم قرض دہندہ نے کہا کہ معاشی بدحالی کا مکمل اثر ابھی ظاہر ہونا باقی ہے حالانکہ بینکنگ سیکٹر ابھی مستحکم دکھائی دیتا ہے۔
آئی ایم ایف نے 120 صفحات کی رپورٹ میں ان کا نام ظاہر نہیں کیا لیکن تجزیہ کاروں کو یقین ہے کہ ان چار بینکوں میں تین میں نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے سلک بینک لمیٹڈ اور سمٹ بینک لمیٹڈ جبکہ پبلک سیکٹر کا ایس ایم ای بینک لمیٹڈ شامل ہے۔
تجزیہ کاروں کو آخری بینک کے نام پر اتفاق نہیں ہے جس کا تعلق پبلک سیکٹر سے ہے۔
آئی ایم ایف نے بتایا کہ مالی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے کم سرمائے والے مالیاتی اداروں سے نمٹنے کے لیے قریبی نگرانی اور فوری کارروائی کی ضرورت ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کو اپنے موجودہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ری کیپٹلائزیشن کے عمل کو تیز کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اگر دو نجی بینک مکمل طور پرسرمایہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ بینک ’ریزولیشن‘ کے عمل میں داخل ہوں۔
آئی ایم ایف نے رپورٹ میں پاکستانی حکام کے حوالے سے بتایا کہ ریزولیشن میں اس لیے تاخیر ہے کہ ممکنہ سرمایہ کاروں کے ساتھ بات چیت جاری ہے، ہم کم سرمائے کے حامل نجی بینکوں کو قریب سے دیکھ رہے ہیں، اور درکار کم از کم سرمائے (ایم سی آر) کی جلد از جلد تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے پُرعزم ہیں۔
متحدہ عرب امارات کا ایک سرمایہ کار اپریل میں 10 ارب روپے کی تازہ ایکویٹی کے ساتھ سمٹ بینک کا سب سے بڑا شیئرہولڈر بن گیا ہے۔
مارچ 2022 کے اختتام تک بینک کا ادا شدہ سرمایہ منفی 22 ارب 60 کروڑ ڈالر رہا، اس کے برخلاف اس کی 10 ارب روپے کی قانونی ضرورت تھی۔
جہاں تک سلک بینک کا تعلق ہے تو تجارتی قرض دہندہ کئی سالوں سے سرمایہ کاروں کی تلاش میں ہے، ایم سی بی بینک تازہ ترین ادارہ ہے جس نے مستعدی سے کام شروع کیا ہے۔
سلک بینک کے نقصانات 2020 کے آخر تک 20.2 ارب روپے تھے، یہ آخری بار تھا جب بینک نے اپنے مالیاتی اکاؤنٹس جاری کیے تھے، اس کا سرمایہ 2020 کے آخر میں 10 ارب روپے کے مقررہ ایم سی آر کے مقابلے میں 3 ارب 16 کروڑ روپے رہا۔
جمعرات کو ڈان سے بات کرتے ہوئے چیس سیکیورٹیز کے ریسرچ ڈائریکٹر یوسف ایم فاروق نے کہا کہ ڈپازٹرز کو اپنے فنڈز کے بارے میں فکر کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ کم سرمایہ والے بینکوں میں سے کسی کے پاس پڑے ہیں کیونکہ اسٹیٹ بینک کا شیئر ہولڈرز کی قیمت پر بھی ڈپازٹرز کی حفاظت کا ٹریک ریکارڈ ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق اسٹیٹ بینک نے بھی اس بات کا عہد کیا ہے کہ وہ ایک پبلک سیکٹر بینک کے مسائل حل کرنے کے لیے آگے بڑھے گا، جب کابینہ نے ادارے کو نجکاری کی فہرست سے نکالنے اور اسے ختم کرنے کے فیصلے کی توثیق کی۔
ایک تجزیہ کار کے مطابق چوتھا کم سرمائے والا قرض دہندہ سندھ بینک ہے، جس کی ایکویٹی تقریباً 16 ارب روپے ہے، اس کے 2 ارب روپے کے خسارے کے ساتھ ساتھ غیر فعال قرضے 7 ارب 80 کروڑ روپے ہیں۔
تجزیہ کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ نقصانات میں شامل کیے جاتے ہیں تو یہ کم سرمائے والے بینک میں شامل ہو جائے گا۔