پاکستان

نگراں وزیراعظم کے نام کیلئے شہباز شریف سے یکم اگست تک ملاقات متوقع ہے، راجا ریاض

ہم نگران وزیر اعظم کے لیے ناموں پر تبادلہ خیال کریں گے، پھر ایک یا دو ملاقاتوں میں فیصلہ ہو گا کہ ہم کسی ایک نام پر متفق ہوتے ہیں یا نہیں، قائد حزب اختلاف

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجا ریاض نے کہا ہے کہ ان کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات یکم اگست تک متوقع ہے جس میں وہ انتخابات سے قبل نگراں وزیر اعظم کے امیدواروں سے متعلق مشاورت کریں گے۔

انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف نے کہا کہ وزیر اعظم سے میری ملاقات یکم اگست تک متوقع ہے اس میں اپنے نام دوں گا اور ہم نگران وزیر اعظم کے لیے ناموں پر تبادلہ خیال کریں گے، پھر ایک یا دو ملاقاتوں میں فیصلہ ہو گا کہ ہم کسی ایک نام پر متفق ہوتے ہیں یا نہیں۔

اپوزیشن لیڈر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سیاسی جماعتیں بالخصوص حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں عام انتخابات سے قبل انتخابات کے وقت اور نگراں سیٹ اپ کے علاوہ دیگر امور پر مشاورت میں مصروف ہیں۔

دریں اثنا، نگراں حکومت کے امیدواروں کے حوالے سے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان قانونی طور پر ضروری مشاورت کا آغاز ہونا باقی ہے۔

راجا ریاض نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں اور وزیر اعظم نگراں وزیر اعظم کے لیے تین تین نام تجویز کرنے ہیں، اگر ہم کسی نام پر متفق نہیں ہوئے تو معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھیج دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ہمارے تجویز کردہ 6 ناموں میں سے ایک نام کا انتخاب کرے گا جو کہ قواعد و ضوابط کے مطابق ہے۔

اس پر، ڈان کے ایک اداریے میں گزشتہ ہفتے کہا گیا تھا کہ متعدد متنازع کرداروں کے نام زیر گردش ہیں اور یہ انتہائی خاموشی کے ساتھ ہو رہا ہے کہ بہت سے لوگ اس عبوری سیٹ اپ کے اصل ’مینڈیٹ‘ کے بارے میں قیاس آرائیاں کر رہے ہیں جس کا اعلان کیا جائے گا۔

ادارایے میں مزید کہا گیا تھا کہ قومی اسمبلی میں کسی حقیقی اپوزیشن کی عدم موجودگی کے پیش نظر اس وقت مشاورت کا عمل محض رسمی دکھائی دیتا ہے، پی ٹی آئی سے منحرف ہونے والے اپوزیشن لیڈر کسی دوسری سیاسی جماعت سے ٹکٹ حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں اور ان کی جانب سے اس معاملے پر کوئی مضبوط یا آزاد رائے کا اظہار کیے جانے کا امکان نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کے منحرف رکن قومی اسمبلی راجا ریاض نے بھی انٹرویو میں کہا کہ پارٹی کے منحرف افراد پر مشتمل ایک گروپ بھی بنایا جائے گا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سابق وزیر دفاع پرویز خٹک کی زیر قیادت پی ٹی آئی سے الگ ہونے کر پی ٹی آئی-پارلیمینٹیرینز بنانے والے بھی اس میں شامل ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ سب ہم سے رابطہ کر رہے ہیں لیکن ہم 22 کے قریب ہیں جو اس معاملے پر باہمی طور پر فیصلہ کریں گے، ہم یکم اگست سے اس حوالے سے ملاقاتیں شروع کریں گے۔

اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ کے بارے میں ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میرے پاس موجود معلومات کے مطابق اسمبلیاں 12 اگست کو اپنی مدت ختم ہونے سے چار دن پہلے 8 اگست کو تحلیل ہو جائیں گی۔

آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا عام انتخاب اس دن سے فوراً بعد 60دن کے اندر کرایا جائے گا جس دن اسمبلی کی میعاد ختم ہونے والی ہو، بجز اس کے کہ اسمبلی اس سے پیشتر تحلیل نہ کردی گئی ہو۔

اسمبلی کی جلد تحلیل کی صورت میں تحلیل ہونے کے 90 دنوں کے اندر الیکشن کمیشن عام انتخابات کرانے کا پابند ہے۔

اس کے بعد نگراں حکومت 90 دن کے عرصے میں انتخابات کے انعقاد کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دی جائے گی اور نگران سیٹ اپ 90 دن کے اندر انتخابات کا پابند ہوگا۔

ادھر وزیر اعظم شہباز شریف نے چند روز قبل اعلان کیا تھا کہ حکومت اگست میں ملک کی باگ ڈور نگراں سیٹ اپ کے حوالے کر دے گی۔

دریں اثنا، یہ الجھن بھی برقرار ہے کہ آیا حکمران اتحادی جماعتیں 12 اگست کو قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے پر اسے معمول کے مطابق تحلیل کریں گی یا صدر کو جلد تحلیل کی سمری بھیجیں گے۔

رواں ہفتے کے اوائل میں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے زور دے کر کہا تھا کہ موجودہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے قومی اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ کے بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

12 اگست کو اسمبلی کی آئینی مدت کی تکمیل سے چند دن قبل 8 اگست کو قومی اسمبلی کی جلد تحلیل کے بارے میں میڈیا رپورٹس کے حوالے سے ردعمل دیتے ہوئے وزیر اطلاعات نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھا ابھی تک قومی اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

میڈیا عام انتخابات کے وقت کے حوالے سے اتحادی جماعتوں کے مختلف رہنماؤں کے متضاد بیانات بھی رپورٹ کرتا رہا ہے، پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر تجارت نوید قمر نے حال ہی میں یہاں ایک بیان میں کہا تھا کہ اسمبلی 8 اگست کو تحلیل کر دی جائے تاکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نومبر میں انتخابات کے انعقاد تک کی مہلت مل سکے۔

تاہم پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے کابینہ کے ایک اور رکن نے دعویٰ کیا تھا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ کے بارے میں پارٹی میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور نوید قمر کا بیان ان کی ’ذاتی رائے یا تجویز‘ ہے۔

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے کابینہ کے ایک اور اہم رکن نے ڈان کو بتایا تھا کہ اتحادی جماعتوں کی جانب سے بہت جلد اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ کو حتمی شکل دی جائے گی۔

وزیر نے کہا تھا کہ یہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور دیگر اتحادی جماعتوں کا اجتماعی فیصلہ ہوگا۔

اس سے قبل آج الیکشن کمیشن کے اسپیشل سیکریٹری ظفر اقبال نے یقین دہانی کرائی کہ کمیشن انتخابات کے لیے مکمل طور پر تیار ہے اور اگر 12 اگست کو اسمبلی مدت پوری ہونے پر اسمبلی کو تحلیل کر دیا گیا تو 11 اکتوبر تک انتخابات کرا دیے جائیں گے۔

پابندی کی شکار فلم ’زندگی تماشا‘ کو 15 ہزار روپے کے عوض دیکھنا ممکن

پاکستان سمیت کئی ممالک میں واٹس ایپ کئی گھنٹوں تک متاثر رہنے کے بعد بحال

منی پور میں خواتین کو برہنہ پریڈ کرانے کے واقعے نے پوری قوم کو شرمسار کردیا، مودی