غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کو روکنے کا برطانوی منصوبہ قانون بننے کو تیار
برطانیہ کا دستاویزات کے بغیر تارکین وطن کو اپنے ساحلوں پر اترنے سے روکنے کا متنازع منصوبہ قانون بننے کے لیے تیار ہے جس پر اقوام متحدہ کی جانب سے تنقید کی گئی۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ قانون سازی بذریعہ چینل (بحری راستہ) اور دیگر ’غیر قانونی‘ راستوں سے آنے والے تمام افراد کی سیاسی پناہ کی درخواستوں کو غیر قانونی قرار دے گی اور انہیں تیسرے ملک مثلاً روانڈا منتقل کر دے گی۔
یہ قانون سازی چھوٹی کشتیوں کے ذریعے شمالی فرانس سے خطرناک کراس چینل کے سفر کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ردِعمل میں تجویز کی گئی۔
رات گئے ہونے والے پارلیمان کے اجلاس میں بل کی مخالفت کو آخرکار شکست دے دی گئی جس کے بعد برطانوی ساحل پر ایک بارج (ایک قسم کا بحری جہاز) پہنچا جسے تارکین وطن کو ٹھہرانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
ڈورسیٹ کے پورٹ لینڈ پورٹ میں بیبی اسٹاک ہوم کے بارج میں رواں ماہ کے اواخر سے 500 پناہ گزینوں کی رہائش متوقع ہے۔
اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے حکومت کے غیر قانونی ہجرت بل کی منظوری کو ’بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور خبردار کیا کہ اس سے مہاجرین کو ’سنگین خطرات‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی نے کہا کہ ’یہ نئی قانون سازی اس قانونی فریم ورک کو نمایاں طور پر ختم کرتی ہے جس نے بہت سے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا ہے‘۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے مزید کہا کہ اس نے ’پناہ سے متعلق ذمہ داریوں کو ختم کرنے کی ایک تشویشناک مثال بھی قائم کی ہے جس کی پیروی کرنے کے لیے یورپ سمیت دیگر ممالک بھی آزما سکتے ہیں۔‘
خطرناک راستہ
غیر منتخب ایوان بالا میں مخالفین نے تبدیلیاں تجویز کر کے بل کو نرم بنانے کی کوشش کی تھی لیکن قانون سازی کے کچھ حصوں میں ترامیم بشمول جدید غلامی کے تحفظات اور اس بات کی حدود جن میں کم عمر تارکین وطن کو کتنی دیر تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے، کو ووٹوں کے ذریعے مسترد کر دیا گیا۔
کنگ چارلس سوم کی جانب سے ’شاہی منظوری‘ کی رسمی کارروائی کے بعد یہ بل اب قانون بن جائے گا۔
سال 2022 میں 45 ہزار سے زیادہ تارکین وطن چھوٹی کشتیوں سے جنوب مشرقی انگلینڈ کے ساحلوں پر پہنچے، اس خطرناک راستے پر سفر میں 60 فیصد سالانہ اضافہ ہوا ہے جسے 2018 سے ہر سال پہلے سے زیادہ لوگ استعمال کر رہے ہیں۔
قانونی اور غیر قانونی دونوں امیگریشن برطانیہ میں طویل عرصے سے ایک اہم سیاسی مسئلہ رہا ہے اور یہ 2016 میں بریگزٹ ریفرنڈم میں اہم معاملہ تھا، جس کے بعد ملک یورپی یونین سے نکل گیا تھا۔
’کشتیوں کو روکنے‘ کا عزم کرنے والے برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک نے اصرار کیا ہے کہ روانڈا منصوبے سے یہ ظاہر کر کے برطانیہ میں غیر قانونی طور پر آنے والوں کو یہاں قیام کی اجازت نہیں ملے گی، اہم رکاوٹ پیدا ہوگی۔
تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ’1951 کا مہاجرین کنونشن واضح طور پر تسلیم کرتا ہے کہ پناہ گزین غیر قانونی طریقوں سے پناہ لینے کے لیے کسی ملک میں داخل ہونے پر مجبور ہوسکتے ہیں‘۔
ایوان بالا میں کنزرویٹو حکومت کے وزیر داخلہ سائمن مرے نے کہا کہ آنے والوں کی بڑی تعداد نے برطانیہ کے سیاسی پناہ کے نظام کو گنجائش سے زیادہ بھر دیا ہے اور ان کی رہائش کے اخراجات کے لیے ٹیکس دہندگان کو یومیہ 60 لاکھ پاؤنڈز خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔
قانونی مشکلات
وزیر داخلہ نے کہا کہ ’اگر لوگوں کو معلوم ہو کہ ان کے لیے برطانیہ میں رہنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، تو وہ اپنی جان کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے اور نہ ہی مجرموں کو غیر قانونی طور پر یہاں پہنچنے کے لیے ہزاروں پاؤنڈ ادا کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس لیے یہ درست ہے کہ ہم کشتیوں کو روکیں اور کمزور لوگوں کا استحصال کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں کے کاروباری ماڈل کو توڑ دیں۔‘
روانڈا کا منصوبہ جس کا اعلان اس وقت کے وزیر اعظم بورس جانسن نے گزشتہ سال کیا تھا، کو آخری لمحات میں یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے بلاک کر دیا تھا، جو کہ یورپی یونین سے الگ ہے، اور اب بھی قانونی چیلنجز میں الجھا ہوا ہے۔