دماغی صحت اور معذوری: کسی کو بھی پیچھے نہ چھوڑیں
انسانی دماغ ایک ایسا اہم اور حیرت انگیز عضو ہے جو ہمارے خیالات، جذبات اور حرکات کو کنٹرول کرتا ہے اور ہماری شخصیت کی تشکیل کرتا ہے۔ ایک صحت مند دماغ جہاں ہمیں زندگی میں سیکھنے، آگے بڑھنے اور چیلنجز پر قابو پانے کے قابل بناتا ہے وہیں اسے درپیش کوئی معذوری انسان کی زندگی کو منفی طور پر متاثر کرسکتی ہے۔ ان معذوریوں کا شکار افراد کو معاشرے کا فعال حصہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ دماغی امراض اور معذوریوں کے حوالے سے آگاہی عام کی جائے۔
اس حوالے سے 2014ء میں عالمی یومِ دماغ منانے کا آغاز ہوا جو ہر سال 22 جولائی کو منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں دماغی امراض کے حوالے سے نمائندہ تنظیم ورلڈ فیڈریشن آف نیورولوجی (ڈبلیو ایف این) اور عالمی فیڈریشن برائے نیورو ری ہیبلیٹیشن (ڈبلیو ایف این آر) نے مشترکہ طور پر رواں سال منائے جانے والے عالمی یومِ دماغ کا عنوان ’دماغی صحت اور معذوری: کسی کو پیچھے نہ چھوڑیں‘ قرار دیا ہے۔
یہ عنوان ایک عالمی اقدام کے تناظر میں اختیار کیا گیا ہے جس میں معذور افراد کے لیے حائل رکاوٹوں کو دور کرنا، اس کے حوالے سے تعلیم اور آگاہی کے خلا کو ختم کرنا اور ان کی صحت کی دیکھ بھال کو بہتر کرنا شامل ہے کیونکہ جب دماغی صحت کی بات آتی ہے تو ہم کسی کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتے۔
معذور افراد کے حوالے سے مسائل و مشکلات کا ایک انبار موجود ہے، اس سال عالمی یومِ دماغ کے عنوان کا انتخاب پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی و اعصابی امراض کے نتیجے میں ہونے والی معذوری کے شکار افراد کی بڑی تعداد کی طرف توجہ دلانے اور ان کے لیے صحت کے نظام میں بہتری کی ضرورت کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
دماغی معذوری ہر عمر، نسل، جنس اور سماجی و اقتصادی حیثیت کے فرد کو متاثر کرسکتی ہے۔ دماغ کے عالمی دن کے موقع پر اس کی آگاہی اور علاج تک رسائی کو بہتر بنانے اور یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ان معذوریوں کا علاج اور بحالی کی سہولیات میسر ہیں، امید و آگہی سے متاثرہ افراد کی زندگیوں میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں معذور افراد فقط ’رحم‘ کی ہی گردان میں رہتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی صحت کے حوالے سے سہولیات کی فراہمی ان کا بنیادی انسانی حق ہے۔ ان معذور افراد کی غالب اکثریت امتیازی سلوک پر مبنی رویوں کے ساتھ ساتھ ضروری دیکھ بھال اور معذوری سے بحالی (ری ہیبلیٹیشن) کی خدمات تک رسائی کی کمی کا بھی سامنا رہتا ہے۔ ان افراد کے لیے پیشہ ورانہ دیکھ بھال، علاج، بحالی اور معاون ٹیکنالوجی تک رسائی بہت ضروری ہے اور یہ تعلیم و آگہی سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ دماغی صحت ایک انسانی حق ہے جو ہر کسی پر، ہر جگہ لاگو ہوتا ہے۔
ڈبلیو ایف این اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں معذور افراد کی تعداد تقریباً ایک ارب 30 کروڑ ہے، ان میں سے تقریباً 9 کروڑ 30 لاکھ بچے ہیں۔ پاکستان دنیا میں پانچویں بڑی آبادی والا ملک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں معذور افراد کی تعداد 70 لاکھ ہے۔ عالمی اعداد و شمار کے تقابلی جائزے کو دیکھیں تو عالمی سطح پر 10فیصدکے مقابلے میں ہمارے ہاں کل معذور آبادی کا 43 فیصد بچے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان میں سے 14 لاکھ بچے اسکول جانے کی عمر کے ہیں لیکن انہیں تعلیم تک رسائی نہیں ہے۔ پاکستان میں دستیاب اعداد کے مطابق تقریباً 65 فیصد معذوروں کا تعلق دیہی جبکہ 34 فیصد کا شہری آبادی سے ہے۔ ان میں مردوں کی اکثریت 58 فیصد جبکہ خواتین کا حصہ 42 فیصد ہے۔
بدلتے قانونی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے معذور افراد کا خیال اور دیکھ بھال ایک بنیادی انسانی حق بن چکا ہے اور اس حوالے سے عالمی سطح پر کئی تبدیلیوں کا نفاذ اب بھی جاری ہے۔ دماغی و اعصابی بیماریاں دنیا بھر میں معذوری کے ایک بڑے تناسب میں حصہ ڈالتی ہیں اور ان بیماریوں کی نوعیت کے لحاظ سے معذوری کے مکمل خاتمے، جزوی خاتمے یا اس کے مستقل ہونے کا تعین کیا جاتا ہے۔
دماغی صحت کا تصور اب دنیا بھر میں مقبول ہورہا ہے اور عالمی ادارہ صحت بھی اس کو قبول کررہا ہے۔ ورلڈ فیڈریشن آف نیورولوجی نے اسے ایک عالمی آگاہی مہم کی شکل دی ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر دماغی امراض سے متعلق آگہی کو فروغ دینا ہے تاکہ دماغی معذوری اور اس کے بروقت تشخیص و علاج کے تصور کو فروغ دیا جا سکے۔
امسال عالمی یومِ دماغ 5 اہم مقاصد کو سامنے رکھ کر منایا جائے گا:
روک تھام: عالمی ادارہ صحت کے مطابق معذوری متاثرہ انسان کی صحت و ماحولیاتی عوامل کے ساتھ ساتھ بدنمائی، عوامی مقامات پر ناقابل رسائی اور عدم سماجی تعاون کے درمیان تعلق کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ کم و بیش ہر نفس ہی اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر عارضی یا مستقل معذوری کے تجربے سے گزرتا ہے۔ دستیاب اعداد کے مطابق اگر موجودہ شرح جاری رہی تو سال 2040ء تک دماغی و اعصابی عوارض کے صرف 23 فیصد بوجھ کو روکا جاسکے گا۔ دماغی امراض کے نتیجے میں معذروری کو روکا جاسکتا ہے اور علاج و بحالی کے ذریعے دیکھ بھال کی جاتی ہے۔
آگہی: دماغی و اعصابی امراض معذوری کے نتیجے میں زندگی کے قیمتی سال ضائع کروانے کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ دماغی و اعصابی معذوری طویل مدتی جسمانی، ذہنی اور سمجھ بوجھ کے حوالے سے ہوسکتی ہے جو کسی بھی فرد کو معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے سے روک سکتی ہے۔ دماغی صحت کی اہمیت کو سمجھنے اور اس کو ترجیح دینے کےلیے آگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ دماغی و اعصابی امراض مثلا فالج، مائیگرین (درد شقیقہ)، نسیان، گردن توڑ بخار اور ایپی لیپسی (مرگی) جیسے دماغی عوارض زندگی کے ماہ و سال میں عارضی یا مستقل معذوری کی وجہ بنتے اور ایام زندگانی کو متاثر کرتے ہیں۔ معذوری متاثرہ فرد کی زندگی کے کم و بیش 20 سال کم کر دینے کی وجہ بنتی ہے۔ معذور افراد میں دائمی امراض مثال کے طور پر یاسیت، ذیابیطس، موٹاپا یا فالج ہونے کے امکانات میں دگنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ آگہی کے ذریعے دماغی امراض کے نتیجے میں ہونے والی معذروری کو روکا جاسکتا ہے۔
رسائی: دماغی امراض کے علاج ، دیکھ بھال، بحالی اور ٹیکنالوجی کی معاونت تک رسائی ضروری ہے۔ اس حوالے سے درکار وسائل کی مقامی سطح پر تیاری سے ان تک منصفانہ رسائی ممکن بنائی جاسکتی ہے
تعلیم: تعلیم دماغی معذوری کے ساتھ رہنے والوں کے لیے مساوات میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔
وکالت: دماغی صحت ایک انسانی حق ہے، جو ہر ایک پر ہر جگہ لاگو ہوتا ہے۔ دماغی معذوریوں کی روک تھام اور متاثرہ افراد کی دیکھ بھال پوری انسانیت کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں ماہرین صحت، پالیسی سازوں اور عوام کو متحد کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے تاکہ حل کے لیے مل کر کام کیا جا سکے۔
امسال عالمی یوم دماغ پر ہمیں اس عزم کا اعادہ کرنا چاہیے کہ پاکستان میں صحت سے منسلک تمام ادارے معذوری کے شکار انسانوں کے جملہ حقوق کا خیال رکھتے ہوئے ملکی قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ پاکستان میں معذور افراد کے مسائل اور مشکلات کو کم کرنے اور انہیں اس معاشرے کا فعال، خوشحال اور باوقار شہری بنانے کے لیے تمام صوبائی و مرکزی حکومتوں کو بنیادی اقدامات کرنے چاہئیں۔
معاشرے و حکومتی سطح پر خصوصی و معذور افراد کو ملکی قوانین پر ہی کم از کم عمل در آمد کروا کر سہولیات فراہم کی جائیں۔ نادرا قومی شناختی کارڈ کے اجرا میں خصوصی توجہ دے تاکہ ان افراد کو معاونت ملنے میں مدد ملے۔
پاکستان میں معذور افراد کے مسائل اور مشکلات کو کم کرنے اور ان کو اس معاشرے کا فعال، خوشحال اور باعزت شہری بنانے کے لیے ہماری تمام حکومتوں کو کچھ بنیادی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ یہ وہ اہم اور بنیادی نوعیت کے اقدامات ہیں کہ جن کے حوالے سے قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عمل درآمد کم ہی نظر آتا ہے۔ معاشرے میں معذور افراد کے لیے قومی سطح پر درج ذیل عملی اقدامات فوری طور پر اٹھائے جانے چاہئیں۔
- معذوری کی تسلیم شدہ اور معیاری تعریف اور درجہ بندی کرکے معذور افراد کی تعدادکا تعین کیا جائے۔ اسکے لیے نادرا ڈیٹا بیس اعداد و شمار کا اجرا کرے۔
- معذوریوں کی تمام اقسام کے بارے میں عوامی شعور بیدار کرنے، معذوریوں سے بچنے، بروقت علاج کرنے اور مستقل معذوری کی صورت میں جسمانی بحالی یا ری ہیب پروفیشنلز کے خدمات حاصل کرنے کی ترغیب دی جائے۔
- پیدائشی معذوریوں کی فوری تشخیص کا ایک مربوط نظام وضع کیا جائے تاکہ قابلِ علاج معذوریوں کے مستقل ہونے سے پہلے ان کا علاج کیا جاسکے۔
- ترقی یافتہ و مہذب ملکوں کی طرح جامع جسمانی بحالی کے لیے قومی و صوبائی صحت کے نظام و بجٹ میں اس کا حصہ رکھا جائے۔ ان کے مضامین کو میڈیکل کالجز، نرسنگ اسکولوں اور الائیڈ میڈیکل سائنسز کے نصاب میں شامل کیا جائے۔ میڈیکل ڈاکٹرز کو اس بات کا پابند کیا جائے، کہ وہ معذور افراد کو بروقت فزیکل ری ہیبلیٹیشن کے لیے متعلقہ ماہرینِ بحالیِ اعصاب کے پاس بھیجیں۔
- ڈویژنل سطح پر معیاری جسمانی، نفسیاتی اور معاشرتی بحالی کے بڑے اور اسپیشلائزڈ مراکز برائے بحالی اعصاب قائم کیے جائیں جہاں فزیوتھراپی، اسپیچ تھراپی، آکوپیشنل تھراپی اور سائیکالوجی سمیت بحالی اعصاب کی تمام سہولیات ایک چھت کے نیچے میسر ہوں۔ تمام ضلعی ہیڈ کواٹر اسپتالوں میں چھوٹے کمپری ہینسیو فزیکل ری ہیب سینٹر بنائےجائیں جہاں مقامی معذور افراد کو بیرونی مریضوں کی بنیاد پر فزیکل ری ہیبلی ٹیشن کی خدمات اور آلات مہیا کیے جاسکیں۔
- عوامی رسائی کی تمام تر عمارتوں بشمول اسپتال، تعلیمی اداروں ،بینکوں، کھیل کود کے میدانوں، مساجد، کاروباری مراکز، راستے اور سڑکوں وغیرہ کو معذور افراد کے لیے آسان رسائی کے قابل بنایاجائے۔ تمام ایئرلائنز، ریلویز، پبلک اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ سسٹم کو معذور افراد کی آسان رسائی اور سیٹنگ کے لیے اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا جائے۔
- پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کو معذور افراد کے لیے نوکریوں کا کوٹہ رکھنے اور اس پر عمل کرنے کا پابند بنایا جائے۔
- معذور افراد کو بہترین سہولیات دینے والے اداروں کو ٹیکسوں میں رعایت دی جائے۔
- معذور افراد کے استعمال میں آنے والے ساز و سامان، آلات، مشینری اور گاڑیوں وغیرہ کو ٹیکس فری ڈیکلیئر کیا جائے۔
- گھر اور بستر تک محدود معذور افراد کا خیال رکھنے والے رشتہ داروں کے لیے کم سے کم تنخواہ مقرر کی جائے یا انہیں ایک یا ایک سے زیادہ مستقل خدمت گار فراہم کیےجائیں۔
- اپنا گھر یا خاندان نہ ہونے کی صورت میں معذور افراد کے لیے، طویل مدتی اقامتی ادارے بنائے جائیں۔
- کامیاب اور باہمت معذور افراد اور ان کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرنے والے رضاکاروں اور میڈیکل پروفیشنلز کو قومی اعزازات سے نوازا جائے۔
آئیے، اس عالمی یومِ دماغ پر یہ عزم کریں کہ ہم معاشرے میں موجود معذور افراد کو معاشرے کا مؤثر حصہ بنانے کے لیے اپنی ذاتی اور اجتماعی حیثیت میں ہر ممکن کام کریں گے تاکہ کوئی شخص پیچھے نہ رہے۔
لکھاری پاکستان میں ہیڈیک ڈس آرڈرز (امور سردرد) میں ماسٹرز ڈگری رکھنے والے پہلے کنسلٹنٹ نیورولوجسٹ ہیں۔ آپ لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری، کراچی کے شعبہ نیورولوجی میں پروفیسر اور ایک طبی تحقیقی مجلے سہ ماہی پی جے این ایس کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر بھی ہیں۔ معروف ملکی و غیر ملکی مجلات میں آپ کے تحقیقی مقالات شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آپ سے اس ای میل drmaharmalik1@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔