افغانستان کا مؤقف کچھ بھی ہو، پاکستان دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے پُرعزم ہے، خواجہ آصف
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغانستان کا مؤقف کچھ بھی ہو، پاکستان اپنی سرزمین سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پُرعزم ہے چاہے اس کا ذریعہ کچھ بھی ہو۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ اس بات سے قطع نظر کہ کابل اپنی سرحدی حدود سے عسکریت پسندوں کے خاتمے کی خواہش رکھتا ہے یا نہیں، پاکستان اپنی سرزمین سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پُرعزم ہے۔
خواجہ آصف نے یہ ردعمل رہنما پیپلز پارٹی فرحت اللہ بابر کی ایک ٹوئٹ پر دیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ ’طالبان نے دوحہ معاہدہ امریکا کے ساتھ کیا ہے، پاکستان کے ساتھ نہیں، اور اس کی پاکستان کے ساتھ پالیسی مختلف ہے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر سیاست دان فرحت اللہ بابر نے ذبیح اللہ مجاہد کے بیان پر ردعمل دیا کہ ’کیا اس بیان سے یہ سمجھا جائے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ افغان طالبان کو کچھ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کا پابند بناتا ہے اور کچھ کے خلاف نہیں؟ یہ پریشان کن ہے۔‘
خیال رہے کہ دو روز قبل (15 جولائی) وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان ہمسایہ اور برادر ملک ہونے کا حق ادا نہیں کر رہا اور نہ ہی دوحہ معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔
مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں ان کا مزید کہنا تھا کہ 50 سے 60 لاکھ افغان شہری تمام تر حقوق کے ساتھ پاکستان میں 4 سے 5 دہائیوں سے پناہ لیے ہوئے ہیں، اس کے بر عکس پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو افغان سر زمین پر پناہ گاہیں میسر ہیں۔
خیال رہے کہ 12 جولائی کو بلوچستان کے علاقے ژوب میں واقع گیریژن میں دہشت گردوں کے حملے میں 9 فوجی جوان شہید اور جوابی کارروائی میں 5 دہشت مارے گئے تھے۔
اسی روز سوئی میں فوجی آپریشنز کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 3 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے والے 2 دہشت گرد بھی مارے گئے تھے۔
ایک بیان میں پاک فوج نے بھی افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو کارروائیوں کے لیے آزادی اور محفوظ مقامات کی دستیابی پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
آئی ایس پی آر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کی عبوری حکومت سے توقع تھی کہ وہ حقیقی معنوں اور دوحہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں کی روشنی میں کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردوں کی سہولت کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دے گی۔
علاوہ ازیں ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے بھی افغان حکام پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے وعدے پورے کریں کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دی جائے۔
عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ
ڈان اخبار کی 15 جولائی کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے گزشتہ سال نومبر میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے کے بعد سے پاکستان نے خاص طور پر خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کی ابتدائی ششماہی میں عسکریت پسندوں کے حملوں کی تعداد 80 فیصد اضافے کے بعد 271 تک پہنچ گئی ہے جس کے نتیجے میں 389 جانیں ضائع ہوئیں اور 656 افراد زخمی ہوئے۔
خیبرپختونخوا میں 174 حملے ہوئے، جن میں 266 افراد جاں بحق اور 463 زخمی ہوئے، بلوچستان میں دہشت گردی کے 75 واقعات رپورٹ ہوئے، جن کے نتیجے میں 100 افراد جان سے گئے اور 163 زخمی ہوئے۔
سندھ میں 13 حملے ہوئے جن میں 19 جاں بحق اور 19 زخمی ہوئے جبکہ پنجاب میں ہوئے 8 حملوں کے نتیجے میں 6 افراد جاں بحق اور 10 زخمی ہوئے۔
نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی ویب سائٹ پر دستیاب ایک رپورٹ کے مطابق متعدد قوتیں بلوچستان میں دہشت گردی کی حمایت کر رہی ہیں اور تعلیم کی کمی، بنیادی ڈھانچے کی ناقص صورتحال، کم کاروباری سرگرمیوں، خاص کر نوجوانوں میں سیاسی محرومی جیسے عوامل کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
جدید ترین ہتھیاروں کا استعمال
ایک سیکیورٹی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا تھا کہ مختلف جغرافیائی صورتحال اور انفراسٹرکچر کی ناقص ترقی کی وجہ سے بلوچستان ہمیشہ سیکیورٹی چیلنجز کا شکار رہا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ تاہم عبوری افغان حکومت کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کو روکنے میں ناکامی بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بدامنی کی تازہ ترین لہر کی بنیادی وجہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی افغانستان میں پناہ گاہوں میں آرام سے رہ رہی ہے ساتھ ہی جدید ترین ہتھیار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اور افغانستان میں آزادانہ طور پر کام کر رہی ہے۔
عہدیدار نے نشاندہی کی تھی کہ بلوچستان میں حالیہ حملوں کا دعویٰ کرنے والے عسکریت پسندوں کے پاس ایم 16 رائفلیں تھیں، جو امریکی فوج کے زیر استعمال تھیں۔
سیکیورٹی عہدیدار کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں نے امریکی فوج کی وردیاں بھی پہن رکھی تھیں، انہوں نے 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے دوران چھوڑے ہوئے اسلحے اور گولہ بارود پر قبضہ کرلیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے فوج بعض علاقوں میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ، دہشت گردوں کا شکار کرے گی اور ان کے پاکستان میں داخلے پر پابندی لگائے گی۔