توشہ خانہ کیس: چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف گواہان طلب کرنے کی الیکشن کمیشن کی درخواست مسترد
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے الیکشن کمیشن کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف 5 گواہان طلب کرنے کی درخواست مسترد کردی، جب کہ سابق وزیراعظم کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس کی سماعت ہوئی، ایڈیشنل اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور نے کیس کی سماعت کی، معاون وکلا نے بتایا کہ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث اسلام آباد ہائی کورٹ میں مصروف ہیں، عدالت نے ساڑھے 12 بجے تک سماعت میں وقفہ کردیا۔
کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی، اس دوران الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن، پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم میں مرزاعاصم، خالدیوسف اور سردار مصروف عدالت میں موجود تھے۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ خواجہ صاحب کیسے ہیں؟ آپ کو نئی کچہری میں خوش آمدید، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آپ کو بھی نئی کچہری کی بہت مبارکباد، وکیل سعد حسن نے کہا کہ امجد پرویز لاہور میں موجود ہیں، وکیل سعد حسن نے کہا کہ دو گواہان کمرہ عدالت میں موجود ہیں، ان کا بیان آج ریکارڈ کروا لیں۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ آج ٹرائل کی سماعت کا آغاز ہونا ہے، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ امجد پرویز کو آج کی تاریخ ٹرائل شروع کرنے کے لیے دی گئی تھی، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست زیر سماعت ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے درخواست دائر کی، یہ شروع کر سکتے ہیں، وکیل خواجہ حارث نے سماعت پرسوں تک ملتوی کرنے کی استدعا کی، انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں معلوم نہیں فیصلہ کیا آتا ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ ایک ہفتے سے بیمار تھے۔
جج ہمایوں دلاور نے وکلا الیکشن کمیشن سے مکالمہ کیا کہ آج تیسری بار سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی ہے، کوئی دلائل دے نہ دے، میں فیصلہ بغیر سنے سنا دوں گا، الیکشن کمیشن کے وکلا کی استدعا پر دو بار سماعت ملتوی کی۔
وکیل الیکشن کمیشن سعد حسن نے کہا کہ کچہری شفٹنگ کے باعث سماعت پہلے ملتوی کرنے کی استدعا تھی، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکلا کے لیے کوئی سماعت ملتوی نہیں ہوگی۔
وکیل الیکشن کمیشن سعد حسن نے کہا کہ آدھا گھنٹہ دے دیں، میں امجد پرویز سے پوچھ کر بتاتا ہوں، جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے امجد پرویز نے کمٹمنٹ دی تھی آج دلائل دینے کی۔
وکیل گوہر علی خان نے کہا کہ اگر دونوں فریقین سے پوچھ کر ایک تاریخ رکھ لیں، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ سماعت تو ملتوی نہیں ہوگی، سماعت آج ہی ہوگی، وکیل سعد حسن نے کہا کہ لیگل ٹیم سے مشاورت کرکے 2 بجے تک عدالت کو بتاتے ہیں، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ آج گواہان کے حوالے سے درخواست پر دلائل دیں ورنہ فیصلہ سنا دوں گا، سماعت میں دو بجے تک وقفہ کردیا گیا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل الیکشن کمیشن سعد حسن نے گواہان کی درخواست پر دلائل دینا شروع کرتے ہوئے کہا کہ بینک الفلاح میں اکاؤنٹ چیئرمین پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے نام سے ہے، عمران خان کے مطابق انہوں نے بینک میں توشہ خانہ کی رقم منتقل کی، جو دستاویزات جمع کروا رہے وہ فرد جرم عائد کرنے سے قبل عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو دے دیے۔
وکیل سعد حسن نے کہا کہ کوئی نئے دستاویزات عدالت میں جمع نہیں کروا رہے، جو دستاویزات جمع کروائے وہ پہلے سے عدالت کے پاس موجود ہیں، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ جب عدالت میں پہلے سے جمع ہیں تو پھر دوبارہ جمع کیوں کروا رہے ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اکتوبر 2022 میں کابینہ ڈویژن میں تعینات چار افسران کو گواہوں کی لسٹ میں رکھا گیا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کابینہ ڈویژن کے سیکریٹری ایڈمن ارشد محمود، ڈپٹی سیکریٹری کوآرڈینیشن فیصل تحسین گواہوں میں شامل ہیں، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ قانون سے نظر پھیر لی جائے، پانچ گواہوں کے نام گواہان کی فہرست میں شامل کرنے کی اجازت دی جائے، گواہان کی درخواست دینے میں کوئی قانونی پہلو غلط نہیں، گواہان کی درخواست دینے کا مقصد عدالت کو مزید مطمئن کرنا ہے۔
پراسیکیورٹر نے مزید گواہان کے بیان قلمبند کروانے کی درخواست کو منظور کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ رقم بینک اکاؤنٹ میں منتقلی کی تصدیق کی، الیکشن کمیشن کے سامنے توشہ خانہ رقم منتقلی کا اعتراف کیا گیا۔
وکیل خواجہ حارث نے پرائیویٹ شکایت میں پراسیکوٹر کے دلائل پر اعتراض اٹھایا جب کہ وکیل الیکشن کمیشن سعد حسن نے کہا کہ قانون کے مطابق پراسیکیوٹر کسی بھی عدالت میں اپنے دلائل دے سکتا ہے، کہیں نہیں لکھا کہ پراسیکیوٹر اپنے دلائل پرائیویٹ شکایت میں نہیں دے سکتا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ قانون کے مطابق پراسیکیورٹر کسی فریق کا حصہ نہیں بن سکتا، قانون کے مطابق الیکشن کمیشن خود پراسیکوٹر کو مدعو کرسکتا ہے، پراسیکیورٹر کا مقصد سچائی کو سامنے لانا ہے، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پرائیویٹ شکایت کنندہ کیسے کسی پبلک پراسیکوٹر سے مدد حاصل کر سکتا ہے، کیا صوبائی حکومت نے پراسیکیوٹر الیکشن کمیشن کے ساتھ تعینات کیا ہے؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اسلام آباد وفاق کا حصہ ہے، چیف کمشنر اسلام آباد پراسیکیورٹر تعینات کرتا ہے، کیا توشہ خانہ کیس پرائیویٹ شکایت سے سرکاری شکایت بنا ہے؟
انہوں نے کہا کہ اس عدالت میں پبلک پراسیکیوٹر، الیکشن کمیشن کی جانب سے دلائل دے رہا ہے، افسوس ہوا، پراسیکیوٹر کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے وکلا ان کیسز کا حوالہ دے رہے ہیں جن میں مدعی پولیس ہے، توشہ خانہ کیس ایک پرائیویٹ شکایت کا معاملہ ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے تو معلوم نہیں تھا کہ پراسیکیورٹر کے معاملے پر بحث شروع ہوجائے گی، قانون میں ترمیم کے بعد پراسیکیوٹر صرف تب دلائل دے سکتا جب مدعی پولیس ہو، قانون میں ترمیم ہی ایسی ہوئی کہ پراسیکیوٹر پولیس کی معاونت کرےگا، وکیل خواجہ حارث نے پبلک پراسیکیوٹر کے دلائل دینے پر اعتراض اٹھادیا۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق پبلک پراسیکیوٹر پرائیویٹ شکایت کنندہ کا حصہ نہیں، فرض کر لیں شکایت الیکشن کمیشن نے دائر کی اور ایک شخص کو اتھارٹی دی،شکایت کنندہ نے سعد حسن کو سب سے پہلے اپنا وکیل منتخب کیا، شکایت کنندہ نے بعد میں امجد پرویز کو اپنا وکیل منتخب کیا، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ آپ کو امجد پرویز کے وکالت نامے پر بھی اعتراض ہے؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے تو معلوم ہی نہیں کہ توشہ خانہ کیس میں ہو کیا رہا ہے، انہوں نے الیکشن کمیشن کے وکلا پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ میرے نوٹس میں ایسی باتیں ہونی چاہیے نا، کون سا پاور آف اٹارنی آرہا ہے، کون سا پاور آف اٹارنی جارہا ہے، کچھ معلوم نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وکیل کوئی ہے اور دلائل پراسیکیوٹر دے رہا ہے، عدالت میں دلائل صرف ایک وکیل ہی دیتا ہے، کبھی الیکشن کمیشن پر اعتراض نہیں اٹھایا، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ آپ کی جانب سے وکیل گوہر علی خان نے دلائل دیے ہیں، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ غلط بیانی نہ کریں، ہم غلط بیانی نہیں کرتے۔
وکیل خواجہ حارث نے جج ہمایوں دلاور سے مکالمہ کیا کہ گوہر علی خان دلائل نہیں دیتے، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے کہ عدالت غلط بیانی کر رہی ہے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت میں قانونی پہلو ہوتے ہیں، ایک ہی پوائنٹ پر الیکشن کمیشن اور پراسیکیوٹر دلائل دے رہے، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ سب چھوڑ دیں، گواہان والی درخواست قابلِ سماعت ہے یا نہیں؟ دلائل دیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ شکایت کنندہ نے ہمیں دائر شکایت کی کاپی دینے ہوتی ہے، شکایت کنندہ، الزام اور گواہان کے نام شکایت کی کاپی میں ہی دینے ہوتے ہیں، توشہ خانہ کیس میں دائر شکایت میں صرف 2 گواہان کے نام ہمیں دیے گئے ہیں، ابھی تو کیس ابتدائی مراحل میں ہے، فرد جرم سے قبل گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شکایت کنندہ کے مطابق مزید 5 گواہان کے بیانات ریکارڈ کروانا بھول گئے، خواجہ حارث نے پیر تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاملہ چل رہا ہے، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آئے گا تو دیکھ لیں گے، مجھے میری عدالت کا کام چلانے دیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں پیر کو آؤں گا، آپ کی عدالت میں بیٹھا رہوں گا، میں گارنٹی دیتا ہوں کہ چیئرمین پی ٹی آئی عدالت آئیں گے، عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کردی۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کی مزید 5 گواہان کو شامل کرنے کی درخواست مسترد کرنے کا مختصر فیصلہ سنا دیا۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے 13 جولائی کو توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے خلاف 5 گواہان طلب کرنے کی درخواست دی تھی، گواہوں میں کابینہ ڈویژن کے 4 افسران اور ایک نجی بینک کے مینیجر شامل ہیں، اکتوبر 2022 میں کابینہ ڈویژن میں تعینات 4 افسران کو گواہوں کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔
کابینہ ڈویژن کے ایک افسر تحائف کی فہرست، اس کی قیمت کا تعین کرنے کے حوالے سے گواہ ہیں اور دیگر 3 افسران نے بھی 14 اکتوبر 2022 کو دستاویزات پر دستخط کیے تھے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے توشہ خانہ کے افسر سے اوریجنل ریکارڈ عدالت لانے کی بھی استدعا کی گئی تھی جب کہ الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی کے کرمنل کمپلینٹ درج کرا رکھی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرنے کی ہدایت
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس کے قابل ہونے کے خلاف درخواست پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرنے کی ہدایت کردی۔
توشہ خانہ کیس کو قابل سماعت قرار دینے کے فیصلے کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ سماعت جاری ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق درخواست پر سماعت کر رہے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث اور بیرسٹر گوہر عدالت میں پیش ہوئے۔
خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمارا کیس ٹرائل کورٹ میں لگا ہوں، یہ کیس اب اسی جج کے سامنے نہیں جانا چاہیے، انہوں نے استدعا کی کہ اگر اجازت دیں تو آج ہی یہ کیس سن لیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آج نہیں تو کل لگ جائے گا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہماری ٹرانسفر کی درخواست بھی اس عدالت میں زیر التوا ہے، عدالت نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کردی، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ اعتراض دور کریں پھر آپ کی اپیل سن لیتے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرائل کورٹ میں اس کیس پر آج ہی سماعت ہونی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو درخواست پر فیصلہ کرنے کے لیے سات دن دیے، ٹرائل کورٹ نے تیسرے دن ہی کیس کا فیصلہ کر دیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ اعتراض دور کریں، میں ادھر ہی ہوں، گزشتہ ہفتے مجھے شدید انفیکشن ہو گیا تھا، عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کردی۔
توشہ خانہ ریفرنس
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔
گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔
بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔
جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔
اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔
چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔
فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔