ہولی وڈ میں جاری ہڑتال: فنکاروں کو سب سے زیادہ کس چیز کا خوف ہے؟
نہ تو اس وقت دنیا کسی عالمی جنگ کی لپیٹ میں ہے، نہ ہی کورونا جیسی عالمی وبا موت بن کر ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے، اس کے باوجود تفریح فراہم کرنے والی سب سے بڑی صنعت ہولی وڈ زلزلے کی شکار کسی عمارت کی طرح لرزتی دکھائی دیتی ہے۔
ہولی وڈ اس وقت ایک جڑواں ہڑتال کی زد میں ہے۔ اس کی رنگت خزاں رسیدہ پتوں کی طرح زرد پڑ چکی ہے اور اس پر اندیشے منڈلا رہے ہیں۔ ایسا اس کی سوا سو سالہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے، جب لگ بھگ پونے دو لاکھ افراد نے، جن میں اسکرپٹ رائٹرز اور اداکار دونوں ہی شامل ہیں، کام ترک کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
ہولی وڈ کی کہانی کا آغاز سنیما کی ایجاد کے ساتھ ہوتا ہے۔ گو سنیما نے موجودہ شکل اختیار کرنے تک ارتقا کے کئی دل چسپ مراحل طے کیے مگر بیسویں صدی کے آغاز میں جب فرانس کے تھیٹرز میں جارج میلیس کی ’اے ٹرپ ٹو دی مون‘ اور امریکا میں ایڈون ایس پورٹر کی ’دی گریٹ ٹرین روبری‘ کی نمائش ہوئی تھی تب ہی سنیما کی بنیاد پڑ گئی تھی۔
اس وقت محض امریکا اس نئی طرز کی تفریح کا مرکز نہیں تھا، بلکہ فرانس، اسپین، جرمنی اور برطانیہ میں بھی چھوٹے چھوٹے تھیٹرز کھل گئے تھے۔ البتہ جب پہلی جنگ عظیم کا عفریت نازل ہوا تو یورپ اس کی لیپٹ میں آگیا جس نے وہاں آرٹ اور کلچر کی سرگرمیوں، بالخصوص فلم انڈسٹری کو شدید متاثر کیا۔ اس کے برعکس امریکی فلم انڈسٹری اس جنگ کے اثرات سے بڑی حد تک محفوظ رہی۔ ایسا ہی کچھ جنگ عظیم دوم میں بھی ہوا۔ یوں قدرت نے خود ہی ہولی وڈ کو انٹرٹینمنٹ کی صنعت کا مرکزی کھلاڑی بننے کا موقع فراہم کر دیا۔
وقت بدلا، دیگر ممالک کی سنیما انڈسٹریز نے ترقی کی، مقابلہ بڑھنے لگا، ٹیکنالوجی آئی، تو اپنے ساتھ لائیو اسٹریمنگ اور او ٹی ٹی جیسا نیا تصور لائی۔ پھر کورونا آن دھمکا جس نے سنیما گھروں کو لگ بھگ تالے لگا دیے، ایسا لگنے لگا تھا کہ اب او ٹی ٹی ہی اس انڈسٹری کا مستقبل ہے، مگر کورونا پابندیاں ہٹنے کے بعد سنیما پوری قوت سے لوٹا۔ البتہ واپسی کے اس عمل میں بڑھتے معاشی چیلنجز نے دراڑیں ڈال دی تھیں، جو مصنوعی ذہانت کی آمد کے بعد عیاں ہونے لگیں۔ تب رواں برس مئی میں ایک بڑا واقعہ رونما ہوا جب رائٹرز گلڈ آف امریکا (ڈبلیو جی اے) نے اسٹوڈیو مالکان کے خلاف ہڑتال کا اعلان کر دیا۔
اسکرپٹ رائٹرز نے ہڑتال کیوں کی؟
فلم، ٹی وی اور ریڈیو کے لکھاریوں کی تنظیم رائٹرز گلڈ آف امریکا، جس کے ارکان کی تعداد 11 ہزار کی قریب ہے، فلم اسٹوڈیوز کی تنظیم ’الائنس آف موشن پکچر اینڈ ٹیلی ویژن پروڈیوسرز‘ (اے ایم پی ٹی پی) سے اجرتوں میں اضافے کے لیے مذکرات کر رہی تھی، جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ اس کے بعد مئی کے آغاز میں ایک ایسی ہڑتال کا اعلان کیا گیا جس سے سنیما اور ٹی وی انڈسٹری میں سراسمیگی پھیل گئی۔ مگر یہ محض آغاز تھا، اس بحران کا نقطہ عروج تو رواں ماہ سامنے آیا، جب اداکاروں کی تنظیم بھی اس ہڑتال میں شامل ہوگئی۔ الغرض ہولی وڈ کا ٹائی ٹینک ایک آئس برگ سے جا ٹکرایا۔
رائٹرز گلڈ آف امریکا اور الائنس آف موشن پکچر اینڈ ٹیلی ویژن پروڈیوز کے درمیان 6 ہفتوں سے مذاکرات جاری تھے۔ لکھاریوں کا مطالبہ تھا کہ ان کی اجرتیں اور سہولتیں بڑھائی جائیں۔ انہیں شکوہ تھا کہ نئے معاہدوں کے ذریعے اسکرپٹ رائٹنگ کو محض فری لائسنگ میں تبدیل کرکے اسکرپٹ رائٹر کی اہمیت کو گھٹا دیا گیا ہے۔ وہ لائیو اسٹریمنگ کی بڑھتی مقبولیت پر بھی معترض تھے۔
یاد رہے کہ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر ایک ہی شو برسوں تک چلتا رہتا ہے، پروڈیوسرز حضرات لاکھوں ڈالرز کماتے ہیں، جب کہ مصنفین کو صرف ایک بار معاوضہ ادا کرکے چلتا کر دیا جاتا ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ لائیو اسٹریمنگ میں بھی ان کا حصہ رکھا جائے۔ ساتھ ہی یہ نکتہ بھی تھا کہ مصنوعی ذہانت کے بڑھتے کردار کا تعین کیا جائے۔ واضح رہے کہ مصنوعی ذہانت کو لکھاریوں یا کونٹینٹ رائٹرز کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جارہا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا، جب ہولی وڈ کے لکھاریوں نے اپنے مطالبات کے لیے قلم چھوڑ ہڑتال کا اعلان کیا۔ 2007ء میں بھی لکھاریوں کی تنظیم کی جانب سے ایک بڑی ہڑتال کی گئی تھی جو 100 روز جاری رہی اور جس میں انڈسٹری کو 2 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
موجودہ ہڑتال کے آغاز میں طاقتور پروڈیوسرز نے لکھاریوں کو ایک کمزور حریف کے طور پر دیکھا اور ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے یوں ہڑتال دو مہینے پر محیط ہوگئی اور تب اس کھیل میں نئے کھلاڑی شامل ہوئے، یعنی اداکار۔
اداکاروں کی تنظیم اس میدان میں کب اتری؟
جولائی کے دوسرے ہفتے میں ایک لاکھ 60 ہزار فن کاروں کی نمائندگی کرنے والی امریکی اسکرین ایکٹرز گلڈ (ایس اے جی) نے بھی لکھاریوں کی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ یوں لگ بھگ 60 برس بعد ہولی وڈ میں ایک بڑا بحران پیدا ہوگیا۔
سن 1960ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب لکھاری اور اداکار، دونوں ’جڑواں ہڑتال‘ پر چلے گئے ہیں اور خوابوں کی نگر مفلوج ہونے کے ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہوگئی ہے۔
او ٹی ٹی پلیٹ فارمز سے شکوہ اور مصنوعی ذہانت کا خوف
اداکار بھی ان ہی مطالبات کے ساتھ میدان میں اترے ہیں، جو لکھاریوں کے تھے۔ انہیں بھی کم اجرتوں کا شکوہ ہے۔ ساتھ ہی یہ اعتراض بھی ہے کہ آرٹسٹوں سے معاہدہ فلم یا ٹی وی شوز کے لیے کیا جاتا ہے اور اسی کلیے سے معاوضہ طے ہوتا ہے، مگر بعد میں پروڈیوسر حضرات اپنی فلم یا سیریز کو او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کو فروخت کر دیتے ہیں جہاں وہ برسوں چلتی رہتی ہیں مگر اداکار کو ایک دھیلا نہیں ملتا۔ لکھاریوں کی طرح اداکار بھی مصنوعی ذہانت سے خوف زدہ ہیں، بلکہ ان کے معاملے میں صورت حال زیادہ گمبھیر ہے۔
اداکاروں کو سب سے زیادہ خوف اپنے چہروں کے ڈیجیٹل متبادل بنائے جانے کا ہے۔ اگر آپ نے نیٹ فلکس کی مشہور ویب سیریز ’بلیک مرر‘ کا چھٹا سیزن دیکھا ہے، تو آپ اس پرپیچ صورت حال کو کچھ سہولت سے سمجھ سکتے ہیں۔ اس فارمولے کے تحت ایک مخصوص رقم کے عوض آرٹسٹوں سے ان کے چہرے استعمال کرنے کے حقوق خرید لیے جاتے ہیں، بعد ازاں پروڈوکشن ہاؤس فن کار کی جسمانی موجودگی کے بغیر، محض مصنوعی ذہانت کی مدد سے ان کا چہرہ استعمال کرتے ہوئے فلم یا ویب سیریز شوٹ کر لیتا ہے۔
آرٹسٹ محض ایک دن کے معاوضے کے بدلے اپنا چہرہ استعمال کرنے کی اجازت دے دیتا ہے، جسے پروڈکشن ہاؤس ساری زندگی استعمال کرسکتا ہے اور اس آرٹسٹ کے چہرے کے ساتھ اپنی مرضی کا کردار تراش سکتا ہے، اچھا یا برا، قابلِ محبت، یا قابلِ نفرت۔ ایک جانب جہاں فن کار کے پاس اپنے کردار چننے کا اختیار ختم ہوجائے گا، وہیں کام کے مواقع بھی گھٹ جائیں گے۔ یہی نہیں، اب آن جہانی اداکاروں کے چہروں کے رائٹس لے کر انہیں بھی بڑے پردے پر پیش کیا جا سکے گا۔ ان اسباب کے باعث اداکاروں کا اس ہڑتال کا حصہ بننا فطری تھا۔
ہڑتال کے اثرات
اس جڑواں ہڑتال کے اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں۔ اداکار فلموں کی پروموشن سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ممتاز ہدایت کار کرسٹوفر نولن کی فلم ’اوپنہیمر‘ کے لندن پریمیئرمیں شریک اداکار ہڑتال کی حمایت میں تقریب سے چلے گئے تھے۔ اداکار میٹ ڈیمن، مارک روفالو، ایملی بلنٹ، مارگوٹ روبی اور جینفر لارنس جیسے اداکاروں نے بھی ہڑتال کی حمایت کی ہے۔
اسکرین ایکٹرز گلڈ کی صدر فران ڈریشر نے اپنے ایک بیان میں موجودہ صورت حال کو مالکان کی لالچ سے تشبیہ دی ہے۔ ساتھ ہی واضح کیا ہے کہ ہڑتال کے خاتمے سے متعلق فی الحال پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔
الغرض فلم اور ٹی وی کے جاری منصوبوں کے ملتوی ہونے کا سلسلہ شروع ہونے کو ہے۔ آنے والی بڑی فلمز تاخیر کا شکار ہوسکتی ہیں، جن میں ونڈر ویمن، اواتار اور گھوسٹ بسٹرز سیریز کی نئی فلمیں نمایاں ہیں۔ گو ڈائریکٹرز کی تنظیم فی الحال اس ہڑتال سے دور ہے، مگر شطرنج کی بساط سے دو اہم ترین مہرے یعنی اداکار اور لکھاریوں کی عدم موجودگی میں ان کی اہمیت خاصی گھٹ گئی ہے۔
اب کیا ہونے والا ہے؟
اس کا جواب دینا آسان نہیں۔ صورت حال گمبھیر ہے۔ مقابلے کی اس سخت فضا میں اچھے لکھاریوں کے بغیر انڈسٹری میں بگاڑ جنم لے گا اور اداکاروں کے بغیر یہ یکسر مفلوج ہوجائے گی۔ شوٹنگز رک گئی ہیں۔ جو فلمز شوٹ ہوچکی ہیں، ان کی ڈبنگ یا پوسٹ پروڈکشن کے لیے اداکار میسر نہیں، فلم فیسٹیولز میں بھی ان تنظیموں کے اداکار شریک نہیں ہوں گے۔
گیند اب پروڈیوسرز کے کورٹ میں ہے۔ اخلاقی طور پر انہیں اپنے بے پناہ سرمائے میں سے فن کاروں اور لکھاریوں کو ان کا جائزہ حصہ دینا چاہیے، مگر طاقت کے اس کھیل میں اخلاقی اصولوں کی پاس داری خال خال ہی کی جاتی ہے۔ اس بار ممکنہ طور پر 4 ارب ڈالر کے نقصان کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔ دونوں ہی فریق مذاکرات کے بجائے سخت گیری کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہیں۔ حالات کشیدہ ہیں، اگر فوری اقدامات نہیں کیے گئے، تو ٹائی ٹینک ڈوب بھی سکتا ہے۔
لکھاری مضمون نگار، استاد، قاری اور فلم بین ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔