ججوں کو معاشرے کی ضروریات سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ججوں کو معاشرے کے شکووں، امیدوں اور ضروریات کو سمجھنے کے لیے عام لوگوں اور دانشوروں سے بھی بات چیت کرنی چاہیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ بحیثیت ایک جج ہم صرف صحیح اور غلط کے متلاشی نہیں ہیں حالانکہ زیادہ تر کیسز میں ہمیں یہی دیکھنا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں انسانی حقوق کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کن حقوق کے تحفظ کی ضرورت ہے اور ان کا تحفظ کیسے کیا جانا چاہیے۔
وہ سپریم کورٹ آڈیٹوریم میں ’ریزیلینٹ پاکستان: کیلیبریٹنگ پاپولیشن اینڈ ریسورسز‘ کے موضوع پر دو روزہ کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اس تقریب کے انعقاد کا مقصد اندرون و بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے مقررین کو ایک جگہ جمع کرکے آبادی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مختلف تجربات، بہترین طریقوں اور حکمت عملیاں پیش کرنا تھا۔
چیف جسٹس نے اس امید کا اظہار کیا کہ کانفرنس میں بنیادی حقوق کے تحفظ کے بارے میں حل سامنے آئیں گے، انہوں نے مزید کہا کہ انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ کانفرنس کا محور آبادی کو فعال بنانے کے طریقے ہیں تاکہ لوگ روزی روٹی کما سکیں اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
چیف جسٹس نے اپنی تقریر کا آغاز خاندانوں کو خوشیاں فراہم کرنے کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے قرآنی آیات سے کیا، انہوں نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ آج ہم صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم میں سے اکثر کو یاد ہے کہ صرف ایک نسل پہلے ہمارے بزرگ تعلیم کے حصول کے لیے عزیز و اقارب سے مدد لیتے تھے یا انہیں اس سلسلے میں مدد فراہم کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ میں جس چیز پر زور دینے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جب ہم ایسے لوگوں کو آگے لائیں گے جو ہنر سے بھرپور تعلیم فراہم کریں گے تو ہمیں منظم خاندان، انتخاب کی آزادی اور خواتین کے احترام کی شکل میں اس کا پھل نظر آئے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کے عوام کو آگے آنا چاہیے اور ریاست کو مسائل کا حل پیش کرنا چاہیے، ہم سب کچھ ریاست پر نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ ریاست پہلے ہی اپنی دیگر ترجیحات میں مصروف ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اسلام اپنے ماننے والوں سے غریبوں کا خیال کرنے کا تقاضہ کرتا ہے، اسلام اس رشتے کو مضبوط کرتا ہے جو خاندان ہمیں فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے یاددہانی کروائی کہ 1947 میں پاکستان کے پاس بظاہر کوئی پیسہ نہیں تھا لیکن دولت مند افراد نے نئے ملک کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے قدم اٹھایا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان نے اپنے ابتدائی مسائل پر قابو پالیا تھا، آزادی کے 4 سال بعد جرمنی کو قرضہ دیا اور حیرت انگیز طور پر 1971 میں چین کو بھی قرضہ دیا۔
انہوں نے یاد کیا کہ قوم ماضی میں سادگی اور کفایت شعاری کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھی لیکن آج ہم اسراف پر فخر کرتے ہیں اور اس جانب ہمیں ہماری اشرافیہ لے کر جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے افسوس کا اظہار کیا کہ آج کل ایک نوکری کے لیے ہزاروں درخواست دہندگان ہوتے ہیں، کوٹہ اور اس سے متعلقہ معاملات کے حوالے سے درخواستیں سپریم کورٹ تک پہنچ جاتی ہیں، ہمیں روزگار کے مزید مواقع پیدا کرکے اس مسئلے پر قابو پانا ہوگا اور اس کے لیے ہمیں باصلاحیت افراد کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے اس تصور سے اختلاف کیا کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی وسائل پر دباؤ کا سبب بنتی ہے، انہوں نے یاد دلایا کہ 1970 کی دہائی میں مشرق وسطیٰ کو افرادی قوت برآمد کرنے کا قدم اٹھایا گیا تھا، اس اقدام کا بہت اچھا نتیجہ نکلا اور قوم کو آج تک اس کا صلہ مل رہا ہے۔
چیف جسٹس نے امید ظاہر کی کہ ماہرین ایران اور بنگلہ دیش جیسے مسلم ممالک کی کامیابیوں کے بارے میں شرکا کو آگاہ کریں گے۔