جن مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی نامزد نہیں، ان میں کارروائی نہ کی جائے، لاہور ہائی کورٹ
لاہور ہائی کورٹ نے حکام کو چیئرمین ٹی آئی عمران خان کے خلاف ایسے مقدمات میں کوئی کارروائی کرنے سے روک دیا جن میں وہ نامزد نہیں ہیں۔
یہ فیصلہ جمعے کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے پی ٹی آئی سربراہ کی جانب سے پنجاب میں ان کے خلاف مقدمات سماعت کے لیے یکجا کرنے اور ان پر کارروائی روکنے کی درخواست پر سنایا۔
عدالتی حکم کے مطابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جس ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو کیس تفویض کیا گیا تھا وہ غیر حاضر ہونے کی وجہ سے دستیاب نہیں تھے اور مزید وقت مانگا گیا۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ مقدمات کے چالان کے حوالے سے متعلقہ ایجنسیاں رپورٹس تیار کر رہی ہیں۔
اس طرح جسٹس امجد رفیق نے حکم دیا کہ درخواست گزار کے خلاف ایسی ایف آئی آرز (فرسٹ انفارمیشن رپورٹ) جس میں انہیں نامزد نہ کیا گیا ہو، اس میں ان کے خلاف اگلی سماعت تک کوئی کارروائی نہیں کی جائے اور کیس کی سماعت 21 جولائی تک ملتوی کر دی۔
عمران خان کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی
اس کے علاوہ، پی ٹی آئی کے سربراہ کے وکیل نے تصدیق کی کہ عمران خان جمعے کو 9 مئی کو کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ جناح ہاؤس کی توڑ پھوڑ کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے بھی پیش ہوئے۔
عمران خان اور وکیل ایڈووکیٹ نعیم حیدر پنجوتا کے ساتھ جے آئی ٹی کے سامنے ہونے والے ایڈووکیٹ علی اعجاز بٹر نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی 9 مئی سے متعلق کیسز میں تفتیش کا حصہ بنے اور اپنا بیان قلمبند کرایا۔
علی اعجاز بٹر نے دعویٰ کیا کہ عمران نے پوچھے گئے تمام سوالات کا جواب دیا، ہم نے لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے حکم کی تعمیل کی اور قانون کے مطابق کارروائی مکمل کر لی گئی ہے۔
عمران خان سے یہ پوچھ گچھ شہر کے سرور روڈ پولیس اسٹیشن میں توڑ پھوڑ کے سلسلے میں درج ایک مقدمے کے حوالے سے کی گئی۔
مقدمے میں ان پر حملہ آوروں کی مدد کا الزام لگایا گیا ہے جنہوں نے ان کی گرفتاری کے بعد جناح ہاؤس میں توڑ پھوڑ کی اور اسے آگ لگا دی تھی۔
9 مئی کو قومی احتساب بیورو کی جانب سے القادر ٹرسٹ کیس میں پی ٹی آئی کے سربراہ کی گرفتاری کے بعد مظاہرین ملک بھر میں سڑکوں پر نکل آئے تھے اور خاص طور پر لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر توڑ پھوڑ کی اور راولپنڈی میں جنرل ہیڈ کوارٹرز کا ایک گیٹ توڑ دیا تھا۔
اس کے بعد عمران اور ان کی پارٹی کے کارکنوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔
جے آئی ٹی کی سربراہی کرنے والے لاہور کے ڈی آئی جی (انوسٹی گیشن) کامران عادل کی جانب سے عمران کو جاری کیے گئے سمن نوٹس میں لکھا گیا کہ عمران خان کے لیے پنجاب کی جانب سے بنائی گئی جے ٹی آئی کو سونپی گئی تحقیقاتی کارروائی میں شامل ہونے کے لیے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کے دفتر میں حاضر ہونا ضروری ہے۔
توشہ خانہ کیس کی سماعت
قبل ازیں اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر پی ٹی آئی کے سربراہ کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
سماعت شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم کے رکن سعد حسن نے عدالت کو بتایا کہ کمیشن کے سینئر وکیل امجد پرویز کچھ ذاتی مصروفیات کی وجہ سے مصروف ہیں لہٰذا وہ آج کی سماعت میں دلائل دینے سے قاصر ہوں گے۔
سعد حسن نے عدالت سے درخواست کی کہ سماعت 17 جولائی (پیر) تک ملتوی کی جائے، عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر نے عدالت سے استدعا کی کہ سماعت پیر کی صبح 11 بجے تک کی جائے۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔
حکمراں جماعت کے اراکین اسمبلی کی طرف سے دائر توشہ خانہ کیس الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے دائر کی گئی مجرمانہ شکایت پر مبنی ہے۔
کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران نے توشہ خانہ سے اپنے پاس رکھے گئے تحائف کی تفصیلات کو جان بوجھ کر چھپایا اور اس پر کئی قانونی مسائل کا سامنا ہے جبکہ یہ مسئلہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ان کی نااہلی کا باعث بھی بنا۔
21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سابق وزیر اعظم نے واقعی تحائف کے حوالے سے جھوٹے بیانات اور غلط اعلانات کیے تھے۔
پرویز الٰہی کو ریلیف مل گیا
اس کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ نے پولیس اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو پی ٹی آئی کے صدر پرویز الٰہی کو کسی بھی نامعلوم کیس میں گرفتار کرنے سے روک دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے یہ حکم پرویز الٰہی اور ان کے بیٹے راسخ الٰہی کی جانب سے دائر درخواستوں پر جاری کیا جس میں انہوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ پی ٹی آئی کے صدر کو نامعلوم مقدمات میں گرفتار کرنے سے روکا جائے۔