دنیا

عریاں تصاویر اسکینڈل: بی بی سی نے ’انٹرنل انکوائری‘ دوبارہ شروع کردی

20 سالہ مبینہ متاثرہ نوجوان نے الزامات کو غلاظت کا ڈھیر قرار دے کر مسترد کردیا، جرم کا کوئی ثبوت نہیں ہے، برطانوی پولیس

برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) نے اپنے اسٹار نیوز اینکر کا نام جنسی تصاویر اسکینڈل میں سامنے آنے کے بعد اندرونی انکوائری دوبارہ شروع کردی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت اسکینڈل میں ملوث شخص کی شناخت کے بارے میں کئی روز تک پھیلی ہوئی قیاس آرائیوں کے بعد سامنے آئی۔

برطانیہ کے معروف نیوز اینکر ہیو ایڈورڈز کی اہلیہ نے بدھ کے روز ڈرامائی انداز میں دعویٰ کیا کہ ان کے شوہر ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے ایک کمسن نوجوان کو مبینہ طور پر عریاں تصاویر کے لیے ہزاروں پاؤنڈز ادا کیے تھے۔

اس بیان سے 6 روز قبل ’دی سن‘ اخبار کی ایک رپورٹ نے اس وقت جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بی بی سی کے سرکردہ پریزینٹر نے ایک کمسن نوجوان کو مبینہ طور پر عریاں تصاویر کے لیے 35 ہزار پاؤنڈز ادا کیے اور یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب اس کی عمر 17 برس تھی۔

نوجوان کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے یہ رقم کوکین کی لت میں مبتلا شخص کے علاج کے لیے استعمال کی تھی لیکن اب 20 سالہ نوجوان نے ان الزامات کو غلاظت کا ڈھیر قرار دے کر مسترد کر دیا۔

سوشل میڈیا پر 6 روز تک مختلف قیاس آرائیاں گردش کرنے کے بعد بی بی سی کے متعدد اسٹارز نے سوشل میڈیا پر وضاحت کی کہ ان میں سے کوئی بھی اس کام میں ملوث نہیں۔

ان الزمات کی تردید کرنے والوں میں شامل ایک شخص نے ملوث پریزینٹر پر زور دیا کہ وہ دوسروں کو جھوٹے الزام لگنے سے بچانے کے لیے سامنے آئیں۔

بی سی سی کے شام 6 بجے کا بلیٹن نشر ہونے کے ساتھ ہی قیاس آرائیوں کا کھیل ختم کرتے ہوئے ہیو ایڈورڈز کی اہلیہ وکی فلائنڈ نے بنیادی طور پر اپنے شوہر کی ذہنی صحت اور اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے شناخت کی تصدیق کی۔

انہوں نے کہا کہ 5 بچوں کے والد دماغی صحت کے سنگین مسائل میں مبتلا تھے، انہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں وہ چند روز زیر علاج رہیں گے۔

عوامی مالی اعانت سے چلنے والے نشریاتی ادارے نے پولیس کی درخواست پر ہیو ایڈورڈز کے خلاف دعووں کی اپنی تحقیقات روک دی تھی۔

لیکن بی بی سی کی فیکٹ فائنڈنگ انویسٹی گیشن اس کے بعد دوبارہ شروع ہوئیں جب کہ 2 پولیس فورسز لندن میٹروپولیٹن پولیس اور جنوبی ساؤتھ ویلز پولیس نے کہا کہ جرم کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی نے اپنے ایک نوٹ میں عملے سے وعدہ کیا کہ مناسب طریقہ کار کی پیروی کی جائے گی اور کہا کہ کارپوریشن کے لیے فوری تشویش کی وجہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم معاملے میں ملوث تمام کرداروں کا خیال رکھیں۔

میڈیا مبصرین اب اصل کہانی شائع کرنے والے اخبار ’دی سن‘ کی اخلاقیات پر یہ کہتے ہوئے سوالات اٹھا رہے ہیں کہ مبینہ متاثرہ فرد نے دعووں کو مسترد کر دیا اور کہا کہ انہوں نے اخبار کو خبر نہ شائع کرنے کا کہا تھا۔

کراچی: پولیس فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت پر اینٹی وہیکلز لفٹنگ سیل کا افسر گرفتار

آئی سی سی کا خواتین اور مردوں کی کرکٹ ٹیموں کی انعامی رقم مساوی کرنے کا اعلان

63 سال میں پہلی بار ہولی ووڈ اداکار ہڑتال کیوں کررہے ہیں؟