شمالی کوریا کا طاقتور بیلسٹک میزائل کا تجربہ، امریکا اور جنوبی کوریا کا اظہار مذمت
شمالی کوریا نے اپنے مشرقی ساحل سے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل فائر کیے ہیں جس کی جنوبی کوریا اور جاپان کے سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ امریکا نے بھی اظہار مذمت کی ہے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق یہ لانچ حالیہ دنوں میں شمالی کوریا کی جانب سے مسلسل شدید شکایات کے بعد کیا گیا جہاں شمالی کوریا نے امریکی جاسوس طیاروں پر اس کے اقتصادی زونز میں فضائی حدود کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا اور امریکی جوہری صلاحیت کی حامل کروز میزائل آبدوز کے جنوبی کوریا کے حالیہ دورے کی مذمت کرتے ہوئے اس کے جواب میں اقدامات کا وعدہ کیا تھا۔
جاپان کے چیف کابینہ سیکرٹری ہیروکازو ماتسونو نے کہا کہ انٹرکانٹی نینٹل بیلسٹک میزائل نے 74 منٹ تک 6ہزار کلومیٹر (3ہزار728 میل) کی بلندی اور 1ہزار کلومیٹر کی رینج تک پرواز کی جو شمالی کوریا کے کسی میزائل کی اب تک کی سب سے طویل پرواز ہے۔
جاپان کے کوسٹ گارڈ نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ میزائل جزیرہ نما کوریا کے مشرق میں تقریباً 550 کلومیٹر(340 میل) دور گرے گا۔
رواں سال اپریل میں شمالی کوریا نے اپنا پہلا ٹھوس ایندھن سے چلنے والے انٹر کانٹینینٹل بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا تھا جو اس سال کیے گئے تقریباً ایک درجن میزائل تجربات میں سے تھا اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ شمالی کوریا کا یہ بیلسٹک میزائل امریکا میں کسی بھی ہدف کا نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس نے ممکنہ طور پر ایسے جوہری ہتھیار تیار کر لیے ہیں جو راکٹوں پر نصب ہو سکتے ہیں۔
سیئول میں یونیورسٹی آف نارتھ کورین اسٹڈیز کے پروفیسر کم ڈونگ یوپ نے کہا کہ ٹھوس ایندھن کا یہ انٹرکانٹی نینٹل بیلسٹک میزائل ہواسونگ-18 کا دوسرا ٹیسٹ ہو سکتا ہے۔
آسن انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز کے پروفیسر یانگ یوک نے کہا کہ تازہ ترین ٹیسٹ مئی میں اپنے پہلے جاسوس سیٹلائٹ کی ناکام لانچنگ کے بعد اس ناکامی کو چھپانے اور اس کو دوبارہ شروع کرنے کی شمالی کوریا کی کوششوں کا حصہ ہو سکتا ہے۔
یانگ یوک نے کہا کہ شمالی کوریا کی جانب سے اس ہفتے امریکا کی جانب سے اس کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے الزامات ممکنہ طور پر اس میزائل کے لانچ کے لیے جواز پیدا کے لیے عائد کیے گئے تھے تاہم امریکا اور جنوبی کوریا دونوں نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
اس میزائل تجربے کے بعد نیٹو اجلاس میں شرکت کے لیے موجود جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے نیٹو سربراہی اجلاس کے موقع پر لتھوانیا میں قومی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں اس میزائل لانچ پر تبادلہ خیال کیا گیا اور اس طرح کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے سربراہی اجلاس کو مضبوط بین الاقوامی یکجہتی کے لیے استعمال کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
یون سک یول اور جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیدا نے الگ الگ بات چیت کی اور اس لانچ کو اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی اور سنگین اشتعال انگیزی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی۔
فومیو کشیدا نے میزائل کو انٹر کانٹی نینٹل بیلسٹ میزائل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے خطے اور اس سے باہر امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے دونوں پڑوسی ممالک اور امریکا کے درمیان قریبی تعاون کی ضرورت ہے۔
یون سک یول نے اس سے قبل جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے رہنماؤں سے ملاقات میں کہا تھا کہ ہم ان اشتعال انگیزیوں کو برداشت نہیں کر سکتے اور ہمیں بین الاقوامی برادری کے سخت ردعمل اور یکجہتی کے ذریعے شمالی کوریا کے ان اقدامات کا جواب دینا چاہیے۔
سیئول کی وزارت خارجہ نے کہا کہ جنوبی کوریا، امریکا اور جاپان کے جوہری سفیروں نے بدھ کے روز ایک فون کال کی تاکہ شمالی کوریا کے میزائل تجربے کو اشتعال انگیزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی جائے جسے کبھی بھی جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
دوسری جانب امریکا نے بھی شمالی کوریا کے میزائل تجربے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ خطے میں عدم استحکام کا سبب بننے والے اقدامات کا خاتمہ کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آئے۔
امریکا کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان ایڈم ہوج نے ایک بیان میں کہا کہ یہ میزائل لانچ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور اس سے خطے میں غیرضروری طور پر تناؤ میں اضافہ ہو گا۔
انہوں نے کہاکہ شمالی کوریا کے لیے سفارت کاری کے دروازے بند نہیں ہوئے اور پیانگ یانگ کو عدم استحکام کا سبب بننے والے ان اقدامات کو ترک کرتے ہوئے سفارتی گفت و شنید کے عمل کا حصہ بننا چاہیے۔