پاکستان

بھگوڑا نہیں، برطانیہ میں موجود ہوں، ہر سوال کا جواب دوں گا، شہزاد اکبر

بھگوڑا اس کو کہتے ہیں جو اشتہاری مجرم ہو، ابھی تک نیب کی طرف سے میرے گرفتاری کے وارنٹ بھی نہیں نکلے، سابق مشیر وزیر اعظم

سابق مشیر احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ بھگوڑا نہیں ہوں، برطانیہ میں موجود ہوں، ہر سوال کا جواب دوں گا، اب تک نیب کی جانب سے وارنٹ بھی نہیں نکلے۔

نجی چینل ’اے آر وائی نیوز‘ کے پروگرام ’آف دی ریکارڈ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ بھگوڑا اس کو کہتے ہیں جو پروکلیم آفینڈر (اشتہاری مجرم) ہو، ابھی تک نیب کی طرف سے میرے گرفتاری کے وارنٹ بھی نہیں نکلے۔

انہوں نے کہا کہ نیب کی طرف سے نوٹسز ملتے رہے ہیں، ہر نوٹس کا میں نے باقاعدہ جواب دیا ہے، جہاں سوالنامہ بھیجا گیا ہے وہاں پورے سوالنامے کا جواب دیا ہے، ان کے نوٹسز کو لے کر اسلام آباد ہائی کورٹ بھی جاچکا ہوں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ نیب سے میں بار بار کہہ رہا ہوں میں برطانیہ میں مقیم ہوں، جو بھی سوال جواب کرنا چاہتے ہیں ویڈو لنک کے ذریعے کرسکتے ہیں، سپریم کورٹ میں سماعتیں ویڈیو لنک کے ذریعے ہوسکتی ہیں تو مجھ سے سوال جواب ویڈیو لنک کے ذریعے کیوں نہیں کرسکتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج صاحب نے بھی اس حوالے سے تبصرہ کیا تھا کہ آپ کیوں انہیں (شہزاد اکبر کو) بلانے پر بضد ہیں، کیا آپ شہباز گل والا سلوک ان کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔

سابق مشیر احتساب نے کہا کہ رواں برس 28 مئی کو اعلانیہ طور پر میرے بھائی کو پولیس اور رینجرز کی تحویل میں لے جایا گیا، 3 جون کو عطا تارڑ نے اعلانیہ طور پر اقرار کیا کہ وہ ان کی تحویل میں ہیں حالانکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پولیس، وزارت دفاع اور وزارت داخلہ نے تحریری بیان جمع کروایا کہ وہ ان کی تحویل میں نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالتیں میرے بھائی کی بازیابی کا حکم دے چکی ہیں لیکن حال سامنے ہے، ایک ماہ ہوگیا لیکن اس معاملے پر سماعت نہیں ہو رہی۔

’القادر ٹرسٹ کیس چیئرمین پی ٹی آئی کے بغض میں بنا‘

القادر ٹرسٹ کیس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں شہزاد اکبر نے کہا کہ این سی اے کیس کو 190 ملین کیس اور اب القادر ٹرسٹ کیس کہنا شروع کردیا گیا ہے، این سی اے کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس گند میں ہمارا نام استعمال نہ کریں، یہ پورا معاملہ این سی اے سے جڑا ہوا ہے، یہ کیس بغض عمران خان پر بنا ہے، کیس کو ڈیڑھ سال ہوگیا لیکن فرد جرم تیار نہیں ہوسکی، متعدد پریس کانفرنسز ہوئیں پر کوئی ثبوت نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہاں لکھا ہوا تھا کہ یہ پیسہ پاکستان کی ٹریژری میں جانا تھا، اس کیس میں ’ایسٹ فریزنگ آرڈر‘ تھا، فریزنگ آرڈر صرف پیسے کو منجمد کرتا ہے، ضبط نہیں کرتا۔

سابق مشیر نے کہا کہ حکومتِ پاکستان اس تصفیے کا حصہ نہیں تھی، حکومت اس معاہدے کی حصہ دار ہوتی تو کہیں دستخط ہوتے۔

نیب کے امور میں جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید کی مداخلت سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نیب کے تمام معاملات یہی صاحبان چلاتے تھے، مجھے اس کیس کے حوالے سے عمران خان یا کسی اور نے کوئی ہدایات نہیں دی تھیں۔

توشہ خانہ کی گھڑیوں کی فروخت سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے آج تک آئی واچ سے آگے کوئی گھڑی نہیں دیکھی، اس کیس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے، نیب نے مجھ سے اس بارے میں سوال پوچھا تو میں نے اس کا بھی جواب لکھ کر ٹوئٹ کردیا۔

چینی اسکینڈل کی تفتیش کے دوران جہانگیر ترین سے ملاقات سے متعلق سوال کے جواب میں شہزاد اکبر نے کہا کہ وہ ملاقات شاید جنرل (ر) فیض حمید نے کروائی تھی، وہ اس معاملے کو ختم کرنے کے لیے اثر انداز ہونا چاہتے تھے، میں نے ان سے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا کہ میرا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے، میں جہانگیر ترین کی بڑی قدر کرتا تھا، اب بھی کرتا ہوں، وہ بہت نفیس انسان ہیں، انہوں نے ہمیشہ میرا حوصلہ بڑھایا۔

قرض معاہدے کا جائزہ لینے کیلئے آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس آج ہوگا

جنوبی ایشیا کے مشہور اسٹریٹ فوڈ ’پانی پوری‘ پر گوگل کا ڈوڈل جاری

آزادی اظہار کیلئے ٹوئٹر بہترین پلیٹ فارم ہے، افغان طالبان