خواتین کی سرگرمیوں پر پابندی کو طالبان اپنی کامیابی کیوں سمجھتے ہیں؟
طالبان کو کابل کا کنٹرول حاصل کیے 2 سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اب بھی وہ افغان خواتین سے ان کی آزادی چھیننے کے درپے ہیں۔ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے لڑکیوں کے اسکول اور جامعات جانے پر پہلے ہی پابندی عائد کی جاچکی تھی اور پھر این جی اوز کے ساتھ کام کرنے والی خواتین پر پابندی عائد کی گئی جبکہ حکومت کے ماتحت کام کرنے والی خواتین کو بھی محدود کردیا گیا۔
صرف یہی کافی نہیں تھا۔ حال ہی میں بیوٹی پارلرز میں کام کرنے والی خواتین جب اپنے کام پر پہنچیں تو انہوں نے دیکھا کہ پارلرز کے باہر آویزاں خواتین کی تصاویر کو ہٹا دیا گیا ہے۔
جلد ہی انہیں پتا چل گیا کہ یہ کام طالبان کا تھا جنہوں نے اب بیوٹی پارلرز پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ طالبان کے مطابق یہ تمام پارلرز ایسی سروسز مہیا کرتے ہیں جن کی ’اسلام میں ممانعت‘ ہے اس لیے ان پر پابندی عائد کرنا ضروری تھا۔
طالبان نے جن چیزوں کو غیراسلامی اور غلط قرار دیا ہے ان میں آئی برو بنانا، بال لمبے کرنے کے لیے قدرتی بالوں پر کسی دوسرے شخص کے بال لگانا اور میک اپ کرنا شامل ہیں۔
ایک ایسے ملک میں جہاں 85 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اس حالیہ پابندی کا افغان خواتین کی معاشی حالات پر گہرا اثر پڑے گا۔ خبررساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئی بیوٹی پارلر چلانے والی ایک خاتون نے کہا کہ ’یہ بیوٹی پارلر میرے لیے کمائی کا واحد ذریعہ تھا اور اب مجھے نہیں پتا کہ میں کیا کروں گی۔ میں نہیں جانتی کہ میں اپنے اخراجات کیسے اٹھاؤں گی؟‘ ان کے شوہر پولیس اہلکار تھے جو پہلے ہی اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس پابندی سے کم سے کم 60 ہزار خواتین کی زندگیاں متاثر ہوں گی۔ خواتین کی ملکیت اور ان کی جانب سے چلائے جانے والے یہ بیوٹی پارلرز، خواتین کی معیشت کا اہم ستون تھے۔ طالبان کی جانب سے ان خواتین کو جیلوں میں ڈالا جائے گا جو دیگر خواتین کے بال کاٹیں گی یا ان کا میک اپ کریں گی۔ یہی وجہ ہے کہ پارلرز میں کام کرنے والی خواتین نے خوف سے یہ کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ایک بیوٹی پارلر کی مالکن جن کا کاروبار متاثر ہوا ہے، کہتی ہیں کہ ’اس ملک میں ہمارے لیے کوئی امید نہیں ہے۔ خواتین کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے‘۔
2021ء میں جب سے طالبان نے دوبارہ کنٹرول سنبھالا ہے تب سے وہ خواتین کو منظرِعام سے ہٹانے کے درپے ہیں۔ ایک پابندی کے بعد دوسری پابندی عائد کی جارہی ہے جن کے باعث خواتین کو آہستہ آہستہ عوامی منظرنامے سے بےدخل کیا جارہا ہے۔
بیوٹی پارلرز کے معاملے میں دیکھا جائے تو وہ خواتین جو وہاں کام کرتی ہیں یا جو ان کی سروسز حاصل کرتی ہیں، وہ پہلے ہی سماجی سرگرمیوں کا حصہ نہیں ہیں۔ مردوں کا یہاں داخلہ ممنوع ہے اس لیے یہ خواتین کے لیے ایک پناہ گاہ کی طرح ہے جہاں انہیں دیگر خواتین سے بات چیت کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اب ان کے لیے یہ راستہ بھی بند کردیا گیا ہے۔
اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ طالبان کی پالیسیاں، افغان خواتین کی ذہنی صحت پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ لگتا ہے جیسے 20 سال کی جنگ انہیں نقصان پہنچانے کے لیے کافی نہیں تھی جو اب طالبان پابندیاں لگا کر ان کے وجود کو محدود کرنا چاہتے ہیں۔
دی واشنگٹن پوسٹ کی شائع کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پابندیوں اور سختی کے باعث افغان خواتین کے نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرِ نفسیات خواتین کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ ایسی سرگرمیوں کا حصہ بنیں جن پر پابندی نہیں ہے لیکن ان پابندیوں کے بڑھتے ہوئے دائرے کے باعث اب ماہرِ نفسیات بھی تجاویز دینے سے قاصر ہیں۔
ایک خاتون واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ جب ان کی سہیلیاں انہیں کہتی ہیں کہ ’وہ بہتر محسوس کررہی ہیں‘ تب انہیں پریشانی ہوتی ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ ٹھیک ہیں بلکہ وہ ہمت ہار کر موجودہ حالات کے آگے ہتھیار ڈال چکی ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت دیگر اداروں کی رپورٹس بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ لڑکیوں میں ڈپریشن کی شکایات میں اضافہ ہورہا ہے۔
افغانستان میں ہونے والی تقریباً 80 فیصد کوششیں خواتین کی جانب سے کی جاتی ہیں۔ ان رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ افغان خواتین شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔
بیوٹی پارلر پر پابندی معاشی اعتبار سے بھی درست نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد امداد پر چلنے والی معیشت مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔ امریکا کے انخلا کے بعد ملک میں بہت سی این جی اوز نے یا تو اپنی سرگرمیاں کم کردی ہیں یا پھر بالکل ہی بند کردی ہیں۔
لیکن خواتین پر بڑھتی ہوئی پابندی کے ساتھ ہی طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان بین الاقوامی برادری کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے اور بین الاقوامی برادری کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کرنے کے علاوہ تجارت میں بھی معاونت کرنی چاہیے۔ مختصر یہ کہ افغان طالبان اس حقیقت سے غافل نظر آتے ہیں کہ عالمی برادری کو ایسی تنگ نظر حکومت کے ساتھ کام کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
افغان خواتین ایک ایسے طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں جو ہر کسی کے ہاتھوں روندا جاتا ہے۔ امریکا نے افغان خواتین کو آزادی دینے کو افغانستان میں اپنے حملے کے لیے جواز کے طور پر پیش کیا تھا جس نے ایک طرح سے ملک پر حملے میں افغان خواتین کو بھی ایک کردار بنا دیا۔
جب امریکا نے افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کیا تو وہ افغان خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات کرکے نہیں گیا اور ان خواتین کو ایک بار پھر انہیں طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جن کے خاتمے کا امریکا نے ان سے وعدہ کیا تھا۔ کیونکہ امریکا نے خواتین کے حقوق کو افغانستان میں اپنے مظالم کی پردہ پوشی کے لیے استعمال کیا اس لیے طالبان خواتین کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کو اپنی کامیابی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یکے بعد دیگرے پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔
افغان خواتین کے لیے کسی کے کوئی قدم اٹھانے کے آثار انتہائی کم ہیں۔ عالمی برادری کی جانب سے طالبان کی حکومت کے بائیکاٹ کا مطلب یہ ہے کہ وہ طالبان پر پابندیاں واپس لینے پر زور نہیں دے سکتے۔ نتیجتاً یکے بعد دیگرے پابندیاں لگائی جاتی رہیں گی اور یوں طالبان کی سختیاں اور عالمی برادری کی مذمت کا سلسلہ جاری رہے گا۔
افغان خواتین کی جس نئی نسل نے اپنی زندگی امریکی موجودگی میں گزاری، اب وہ طالبان کے زیرِ تسلط ملک میں زندگی گزار رہی ہیں جہاں وہ بہتر مستقبل کی امید، یہاں تک کہ ایک اچھے ہیئر کَٹ کے لیے ترس رہی ہیں۔ تنہا اور خاموش، افغان خواتین کو ایک جنگ زدہ ملک میں طالبان کے تنگ نظر اور خواتین مخالف نظریات برداشت کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔
یہ مضمون 12 جولائی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔