پاکستان

کشن گنگا تنازع پر سینیٹ کمیٹی کا اِن کیمرا بریفنگ لینے کا فیصلہ

وزارت قانون نے قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف سے کہا کہ وہ اٹارنی جنرل کے دفتر سے کسی کو بریفنگ کے لیے بلائیں کیونکہ اس معاملے کو وہی دیکھ رہے ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کے تنازع پر ان کیمرا بریفنگ لینے کا فیصلہ کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹر سید علی ظفر کی سربراہی میں کمیٹی نے گزشتہ روز اس معاملے پر بحث کی۔

وزارت قانون نے کمیٹی سے کہا کہ وہ اٹارنی جنرل کے دفتر سے کسی کو بریفنگ کے لیے بلائیں کیونکہ اس معاملے کو وہی دیکھ رہے ہیں، جس کی سماعت ’دی ہیگ‘ میں بین الاقوامی ثالثی عدالت کر رہی ہے۔

کمیٹی نے وزارت قانون کو جواب دینے کے لیے مزید وقت دینے پر اتفاق کیا اور فیصلہ کیا کہ اِن کیمرا بریفنگ کے لیے الگ سیشن منعقد کیا جائے گا۔

گزشتہ ہفتے ہیگ کی مستقل ثالثی عدالت (پی سی اے) نے سندھ طاس معاہدے کے تحت کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع میں اپنے دائرہ اختیار پر بھارت کے اعتراضات کو مسترد کر دیا تھا۔

پاکستان کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے مستقل ثالثی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ وہ یقینی طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشن گنگا تنازع کا فیصلہ کرنے کے لیے مجاز اتھارٹی ہے۔

یہ تنازع بھارت کی جانب سے دریائے جہلم پر 330 میگاواٹ کے کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ اور مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب پر 850 میگاواٹ کے رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کی تعمیر پر پاکستان کے خدشات سے متعلق ہے۔

صوبوں کا قیام

کمیٹی نے 2 نئے صوبوں جنوبی پنجاب اور ہزارہ ریجن کے قیام کے معاملے پر بھی بات چیت کی، کمیٹی کی جانب سے یہ کہا گیا کہ انتظامی تقسیم کے بارے میں دوبارہ سوچنے کی ضرورت کے لیے کافی وجوہات موجود ہیں۔

سینیٹر سید علی ظفر نے لاہور اور پشاور سے کچھ فاصلے پر واقع مذکورہ علاقوں میں ناقص گورننس اور معاشی ترقی کے فقدان کی نشاندہی کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ فاصلہ لوگوں کے لیے روزمرہ کے مواصلاتی مسائل بھی پیدا کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مزید صوبوں کے قیام سے صوبوں میں اقلیتوں کی معاشی اور سیاسی پسماندگی دور ہوگی اور وفاق کو بھی مضبوط کیا جاسکے گا۔

تاہم چیئرمین کمیٹی نے نشاندہی کی کہ نئے انتظامی یونٹس کی تشکیل صرف نسلی اور لسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ آبادی کے مطابق اور انتظامی خطوط پر بھی ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کیا پاکستان موجودہ معاشی حالات میں موجودہ وسائل کے ساتھ نئے صوبے بنا سکتا ہے یا نہیں اور دوسری بات یہ کہ جن صوبے کے قیام کی تجویز دی جارہی ہے وہ معاشی طور پر قابل عمل اکائیاں ہوں گے یا نہیں۔

انہوں نے یہ نشاندہی بھی کی کہ نئے صوبوں کی تشکیل کی صورت میں علیحدہ کابینہ، گورنر، اسمبلیاں، عدالتیں، ہائی کورٹس، وزارتیں اور محکمے بنیں گے اور وفاقی سروس میں نئے صوبوں کا کوٹہ شامل کیا جائے گا اور نئے صوبائی کیڈرز بنانے ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کمیٹی کو وسائل کی تقسیم، این ایف سی ایوارڈ پر دوبارہ غور کرنے کے ساتھ ساتھ نہروں کی تقسیم سے متعلق معاملات کو بھی دیکھنا ہوگا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ کیس قابل سماعت ہونے کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا

شہروز سبزواری سے متعلق بیان پر ماڈل نتاشا حسین کی معذرت

آزادی اظہار کیلئے ٹوئٹر بہترین پلیٹ فارم ہے، افغان طالبان