آزادی اظہار کیلئے ٹوئٹر بہترین پلیٹ فارم ہے، افغان طالبان
ایک ایسے وقت میں جب ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک پر تنقید ہو رہی ہےکہ وہ پلیٹ فارم پر سینسرشپ عائد کر بیٹھے ہیں لیکن اسی دوران افغان طالبان نے ٹوئٹر کو ’آزادی اظہار ’ کے لیے بہترین پلیٹ فارم قرار دے دیا۔
غیرملکی خبر ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق ایک سینئر طالبان رہنما انس حقانی نے کہا کہ میٹا کے ماتحت حریف پلیٹ فارم ’تھریڈز‘ کے آغاز کے بعد ٹوئٹر کو دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے مقابلے میں ’دو اہم فوائد‘ حاصل ہوئے ہیں۔
انس حقانی نے کہا کہ پہلا فائدہ آزادی اظہار ہے جبکہ دوسرا فائدہ عوامی نوعیت اور ٹوئٹر کی ساکھ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ٹوئٹر کے پاس میٹا کی طرح عدم برداشت کی پالیسی نہیں ہے اس لیے دیگر پلیٹ فارمز اس کی جگہ نہیں لے سکتے‘۔
انس حقانی کے اس بیان پر چند صارفین کی طرف سے غصے کا ردعمل سامنے آیا، جنہوں نے کہا کہ طالبان حکومت نے شہریوں کو برابر کے حقوق نہیں دیے۔
واضح رہے کہ اگست 2021 میں اقتدار میں آنے تک افغان طالبان سوشل میڈیا پر انتہائی کم تھے اور اسی دوران ان کے اکاؤنٹس بننے کے فوراً بعد بلاک کیے جاتے تھے۔
تاہم اب افغان طالبان کسی بھی اعلامیے کے لیے سب سے زیادہ ٹوئٹر کا استعمال کرتے ہیں جہاں متعدد وزارتوں اور صوبائی محکموں کے آفیشل اکاؤنٹ بنے ہوئے ہیں۔
ادھر فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور تھریڈز جیسے پلیٹ فارمز طالبان سے منسلک تمام اکاؤنٹس تاحال بلاک کر رہے ہیں۔
گزشتہ برس فیس بک نے ریڈیو، ٹیلی ویژن افغانستان اور بختار نیوز ایجنسی کے اکاؤنٹس بلاک کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکی قانون پر عمل درآمد کر رہا ہے جہاں طالبان کو دہشت گرد جماعت قرار دیا گیا ہے۔
دوسری جانب ایلون مسک نے ٹوئٹر خریدتے ہی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت ہزاروں صارفین کے اکاؤنٹس بحال کر دیے تھے۔
واضح رہے کہ انس حقانی طالبان حکومت میں نوجوان ’سیاسی رہنما‘ ہیں۔
ان کے ٹوئٹر پر 5 لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں جہاں وہ اکثر کرکٹ اور شاعری سے لے کر مقامی اور عالمی سیاست تک کے موضوعات پر اپنی رائے دیتے ہیں۔
تاہم ان کے اس بیان پر متعدد صارفین نے ان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے بیان کو ’منافقت‘ قرار دیا ہے۔
طالبان حکام کی طرف سے عام افغان شہریوں کی سوشل میڈیا سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور طالبان حکومت کے خلاف تنقیدی پوسٹس کے لیے متعدد افراد کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی گئی ہے۔
ایک جلاوطن مصنفہ حمیرا قدیری نے ان پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’آزادی اظہار کی بات کرنا آپ کے لیے انتہائی شرم ناک ہے‘۔