پاکستان

پشاور: علما، اقلیتوں پر حالیہ حملوں کے پیچھے داعش ہے، سی ٹی ڈی

15سے 20 عسکریت پسندوں پر مشتمل گروپ کی شناخت کر لی گئی ہے جس کا جلد ہی قلع قمع کردیں گے، ایڈیشنل انسپکٹر جنرل شوکت عباس

محکمہ انسداد دہشت گردی پشاور نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں مذہبی اسکالرز اور اقلیتی گروپوں کے ارکان کے خلاف حالیہ ہدف بنا کر کیے گئے حملوں کے پیچھے عسکریت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ (داعش) کا ہاتھ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایڈیشنل انسپکٹر جنرل شوکت عباس نے پشاور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ صوبائی دارالحکومت میں اسپیشل پیٹرولنگ اسکواڈ ابابیل فورس کے ساتھ ہونے والے مقابلے کے بعد محکمہ انسداد دہشتگردی نے داعش سے وابستہ دہشت گرد امین اللہ کو گرفتار اور ایک دہشت گرد ظفر کو ہلاک کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ 25 جون کو ایک مسلح شخص نے مسیحی برادری کے رکن مشتاق کو قتل کیا اور فرار ہوا لیکن ابابیل فورس نے گڑھی قمردین کے علاقے کے قریب رنگ روڈ پر اسے روکا۔

ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی بندوق بردار نے ابابیل فورس کو دیکھا تو اس پر فائرنگ کر دی جس سے تین اہلکار زخمی ہو گئے، پھر فورس کی جوابی کارروائی میں وہ مارا گیا۔

پولیس افسر نے یہ بھی بتایا کہ پولیس نے پستول، موٹرسائیکل، 2 سم کارڈز، ایک بی آر ٹی کارڈ اور ایک افغانستان کی شہریت کارڈ جس پر خالد خان ولد مسافر کا نام درج ہے، اسے اپنے قبضے میں لے لیا ۔

سینئر پولیس حکام کے مطابق ابتدائی تفتیش میں مسلح شخص کی شناخت ظفر کے نام سے ہوئی جو کہ صوبائی دارالحکومت کے علاقے رشید گڑھی میں رہنے والا افغان شہری ہے، مزید تفتیش کے ذریعے خاص طور پر ظفر کے موبائل فون سے ملنے والی لیڈز نے ظفر کے سسر امین اللہ کو گرفتار کرنے میں سی ٹی ڈی کی مدد کی۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں عسکریت پسندوں کا تعلق افغان شہریوں پر مشتمل نیٹ ورک سے تھا جو افغانستان کے علاقے پل چرخی میں قید رہے تھے۔

حکام نے بتایا کہ اس نیٹ ورک کے تقریباً 60 ارکان افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد جیل سے فرار ہو کرمبینہ طور پر پاکستان میں داخل ہوئے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ یہ معلوم نہیں ہے کہ ان میں سے کتنے عسکریت پسند سرگرم اور متحرک ہیں۔

اے آئی جی شوکت عباس نے کہا کہ مذہبی اسکالرز اور مذہبی اقلیتوں کے ارکان کے خلاف ٹارگٹڈ حملے مارچ میں شروع ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک کا سراغ لگانا اور اس کے ارکان کی شناخت کرنا ایک مشکل کام تھا۔

انہوں نے بتایا کہ مارچ سے اب تک 9 افراد کو ٹارگٹ بنایا گیا، نشانہ بنائے گئے افراد میں سکھ، عیسائی اور مسلمان علما شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سائنسی طریقے اپنائے گئے، کڑی سے کڑی جوڑنے کا پیٹرن اپنایا گیا، فرانزک شواہد سے پتا چلتا ہے کہ ان تمام حملوں میں ایک ہی پستول استعمال کیا گیا تھا۔

شوکت عباس نے کہا کہ 15سے 20 عسکریت پسندوں پر مشتمل گروپ کی شناخت کر لی گئی ہے جب کہ محکمہ اس کے قریب ہے اور جلد ہی اس کا قلع قمع کر دے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کارروائیاں ہر روز گندہ ہونے والے اپنے گھر کی صفائی کے مترادف ہیں۔

سینئر پولیس اہلکار نے کہا کہ بہت کم لوگوں نے پولیس کو بھتہ طلبی سے متعلق اطلاعات دیں۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں حیات آباد میں حملے کی زد میں آنے والے تاجر نے یکم مئی کو بھتے کی کال موصول ہونے پر مقدمہ درج کرایا تھا۔

شوکت عباس نے کہا کہ اس کیس نے تفتیش کاروں کی بھتہ خوری کے لیے کی جانے والی کالز کے پیچھے موجود ملزمان کا سراغ میں مدد کی۔

اسی دوران پشاور سٹی پولیس کے سربراہ سید اشفاق انور نے کہا کہ بغیر اجازت سڑکیں بلاک کرنے والے پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے، قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔

بُک ریویو: ’اَن ولِنگ سلیوز‘

پاکستان نے گیمرز 8 ٹیکن7 نیشنز کپ میں جنوبی کوریا کو شکست دے دی

عثمان مختار کا نیمل خاور کی سرجری پر ردعمل