پاکستان

ضلع کرم میں قبائلی جھگڑے کے دوران مرنے والوں کی تعداد 9 ہوگئی

جھڑپوں میں اب تک 42 افراد زخمی ہو چکے ہیں جن میں سے تین کی حالت نازک ہے، ادویات کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے، قیصر عباس بنگش

خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کے مختلف علاقوں میں گزشتہ ہفتے دو قبائل کے درمیان زمین کے ایک ٹکڑے پر ہونے والی جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 9 ہو گئی۔

کرم ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال (ڈی ایچ کیو) کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر قیصر عباس بنگش نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جھڑپوں میں اب تک 42 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ زخمیوں میں سے تین کی حالت نازک ہے، ہم ان کی جان بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن ضلع میں ادویات کی کمی کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے۔

کرم میں گزشتہ چار دنوں سے جاری جھڑپیں ضلعی ہیڈکوارٹرز پاراچنار کے علاقے بوشہرہ ڈنڈار سے شروع ہوئی تھیں اور شاملاتی اراضی کے ایک ٹکڑے پر خار کلے، بالش خیل اور پیواڑ تیری مینگل سمیت دیگر علاقوں تک پھیل گئی۔

جھڑپوں کے پہلے دو دنوں میں پانچ افراد مارے گئے، اتوار کو تیری مینگل کے علاقے میں ایک اور شخص ہلاک اور پیواڑ کے علاقے میں تین افراد زخمی ہوئے، بالش خیل اور خار کلے کے علاقوں میں جھڑپوں کے نتیجے میں ایک اور شخص جاں بحق اور دو زخمی ہوئے۔

ڈاکٹر قیصر بنگش نے کہا کہ آج پیواڑ کے علاقے میں فائرنگ کے نتیجے میں مزید دو افراد ہلاک جبکہ تین زخمی ہوئے۔

ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کرم کے ڈپٹی کمشنر سید سیف الاسلام شاہ نے کہا کہ متحارب قبائل کے درمیان جنگ بندی کرانے کے لیے ضلعی انتظامیہ اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے قبائلی سرداروں کے ساتھ مل کر کوششیں جاری ہیں۔

دریں اثنا وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی اور انسانی وسائل کی ترقی ساجد حسین طوری نے کہا کہ وہ امن کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے کرم کا دورہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس، فوج اور قبائلی عمائدین پیواڑ، بالش خیل اور خار کلے کے علاقوں میں متحارب قبائل کے درمیان جنگ بندی کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں اور یقین دلایا کہ حالات جلد معمول پر آجائیں گے۔

ساجد حسین طوری نے مزید کہا کہ کسی کو بھی علاقوں میں امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں گے۔

علاقے میں رہائش پذیر مقامی افراد نے بتایا کہ لوگوں کے زخمی اور ہلاک ہونے کے ساتھ ساتھ ضلع میں روزمرہ کی زندگی بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

اس علاقے کے رہائشی حاجی افضل نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا کہ یہاں اسکول ہفتوں سے بند ہیں اور سڑکیں بھی بند ہیں، کرم بھر میں دکانیں تقریباً چار دنوں سے بند ہیں اور ادویات اور کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت ہے۔

حاجی افضل نے مزید کہا کہ جو لوگ عیدالاضحیٰ کی تعطیلات کے دوران اپنے آبائی کو واپس آئے تھے وہ خراب حالات کی وجہ سے پشاور جیسے شہروں میں اب تک واپس نہیں جا سکے۔

بیٹی سے دوری کے خیال سے بہت سارے منصوبوں میں کام نہیں کیا، سائرہ یوسف

کراچی: خراب چارجنگ سسٹم کی تبدیلی کے بعد الیکٹرک بس سروس بحال

پاکستان میں آم کی کاشت کو کیسے پائیدار بنایا جاسکتا ہے؟