دنیا

فرانس: پولیس حراست میں ہلاک شخص کا بھائی گرفتاری کے دوران شدید زخمی

یوسف ترور کو پیرس میں احتجاج کرتے وقت گرفتاری کے دوران آنکھ میں چوٹ لگی اور پولیس اسٹیشن میں بیمار ہونے کے بعد انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا، پولیس

فرانس میں 7 برس قبل پولیس کی تحویل میں قتل ہونے والے نوجوان کی یاد میں نکالی گئی ریلی کے دوران گرفتار کیے گئے مقتول کے بھائی زخمی ہو گئے جنہیں علاج کے بعد ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا۔

غیرملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق پیرس کے قریب ایک نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد 2005 کے بعد ملک میں ہونے والے بدترین فسادات عروج پر ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 29 سالہ یوسف ترور کو پولیس نے گزشتہ روز ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے درمیان حراست میں لیا تھا جنہوں نے 2016 میں پولیس حراست میں اپنے بھائی آدانا ترور کی موت کے خلاف بطور احتجاج ریلی نکالی تھی۔

پولیس کے مطابق یوسف ترور کو پیرس میں احتجاج کے دوران جب گرفتار کیا گیا تو موقع پر ان کی آنکھ میں چوٹ لگی تھی اور پولیس اسٹیشن میں بیمار ہونے کے بعد انہیں ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

ٹوئٹر پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں یوسف ترور کی سوجی ہوئی دائیں آنکھ اور پھٹی ہوئی ٹی شرٹ کو دیکھا جا سکتا ہے۔

پوسٹ کے مطابق ان کی ناک ٹوٹی ہوئی تھی، سیاہ آنکھ کی وجہ سے وہ صدمے میں تھے اور ان کے سینے، پیٹ اور ریڑھ کی ہڈی میں زخم آئے ہوئے تھے۔

پوسٹ کرنے والے شخص نے کہا کہ سنگین تشدد کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔

اس معاملے سے باخبر قریبی ذرائع کے مطابق یوسف ترور کو ایک اہلکار پر تشدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر پلیس ڈی لا ریپبلک میں ریلی کے آغاز میں ایک پولیس افسر کو مارنے کا الزام تھا۔

پیرس کے پراسیکیوٹر کے دفتر نے کہا کہ ان کے ہسپتال میں داخل ہونے کی وجہ سے ان پر عائد الزامات کو ہٹا دیا گیا ہے لیکن بعد میں ان الزامات کو دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے۔

خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں پیرس پرتشدد مظاہروں کی زد میں ہے جہاں 27 جون کو پیرس کے مضافاتی علاقے میں ایک ٹریفک اسٹاپ کے دوران پولیس افسر نے 17 سالہ ناہیل ایم کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جس کے بعد سے ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔

اس فائرنگ نے فرانس کی سیکیورٹی فورسز میں طویل عرصے سے مایوسی اور نظامی نسل پرستی کے الزامات کو دوبارہ جنم دیا ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے کیے جاتے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ناہیل ایم کی موت کے بعد سے ہونے والے مظاہروں کے سلسلے میں 37 ہزار سے زیادہ لوگوں کو پولیس کی تحویل میں لیا گیا تھا جن میں کم از کم 1 ہزار 160 نابالغ بھی شامل تھے۔

تیسرا ایشز ٹیسٹ: آسٹریلیا کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد 3 وکٹوں سے شکست

سوشل میڈیا ٹرولنگ نے ’بولنے سے پہلے سوچنا‘ سکھادیا ہے، حرا مانی

بھارت: موسلادھار بارش سے دو دن میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک