’چین سے اسٹیبلشمنٹ کو انتخابات میں تجربہ نہ کرنے کے پیغام کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا‘
وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ ان کا ایک حالیہ بیان جس میں وہ یہ کہتے ہوئے دکھائی دیے کہ چین نے پاکستان کو 2018 کے انتخابات کے دوران ’کوئی تجربہ‘ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، اسے ’سیاق و سباق سے ہٹ کر‘ لیا گیا۔
انہوں نے یہ وضاحت گزشتہ رات جیو نیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں دیے گئے بیان کی میڈیا کوریج کے بعد جاری کی، پروگرام کے دوران انہوں نے پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
احسن اقبال نے کہا تھا کہ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ میرے ذاتی علم میں ہے کہ چین نے اپنے معمول کے سفارتی انداز میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ آپ کوئی نیا تجربہ نہ کریں کیونکہ پھر سی پیک پٹری سے اتر جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اور پھر انہیں (چین کو) کہا گیا کہ ’نہیں، جو بھی آگے آئے گا، یقین رکھیں، ہم انہیں درست رکھیں گے اور وہ اس (سی پیک) کو جاری رکھیں گے۔‘
مخلوط حکومت سے منسلک اراکین نے متعدد مواقع پر اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت پر اربوں ڈالر کے سی پیک منصوبے پر پیش رفت کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا ہے۔
جب میزبان سلیم صافی نے اپنے دعوے کی تصدیق چاہی تو وفاقی وزیر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ میرے علم میں ہے کہ اپنے معمول کے محتاط انداز میں انہوں نے بتایا تھا کہ کسی بھی قسم کی تبدیلی کا تجربہ پاکستان کے حق میں نہیں ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ سی پیک کو تباہ کر دے گا، لہٰذا آپ کو انتخابات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، منصفانہ اور آزادانہ انتخابات ہونے دیں‘۔
احسن اقبال نے پھر زور دے کر کہا کہ ’اس وقت ہر کوئی دیکھ سکتا تھا کہ اگر منصفانہ اور آزادانہ انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت ایک بار پھر اقتدار میں آئے گی‘۔
جب میزبان کی جانب سے مزید پوچھا گیا کہ چینی حکام کو پہلے سے کیسے معلوم تھا کہ پی ٹی آئی حکومت مبینہ طور پر سی پیک کی پیش رفت کو مزید خراب کرے گی، تو وفاقی وزیر نے جواب دیا کہ ’یہ اس بات سے متعلق نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کیا کرے گی، یہ رکاوٹ کے بارے میں ہے۔‘
بعد ازاں آج اپنے وضاحتی ٹوئٹ میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ ’ایک ٹی وی انٹرویو میں چین کے بارے میں میرا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا جس کی وضاحت کی ضرورت ہے، چین دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر قائم ہے۔‘
انہوں نے زور دیا کہ ’عام انتخابات کے ساتھ تجربہ نہ کرنے کا مشورہ سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے کچھ سینئر کاروباری افراد کی نجی طور پر ظاہر کی گئی رائے تھی، چین کا سرکاری طور پر اسٹیبلشمنٹ کے لیے پیغام نہیں تھا جیسا کہ ان کے ٹی وی انٹرویو میں دیکھا گیا۔‘
انٹرویو میں جو کچھ انہوں نے کہا تھا اس کا اعادہ کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ مارچ/اپریل 2018 تک یہ بات کافی حد تک واضح ہو چکی تھی اور بین الاقوامی میڈیا میں کھل کر بات کی جا رہی تھی کہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ، مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی واپسی نہیں چاہتی تھی اور انتخابی عمل میں مداخلت کے ذریعے پی ٹی آئی کو اقتدار میں آنے میں مدد کرنا چاہتی تھی۔