یونان کشتی سانحہ: تارکین وطن میں شامل خوش قسمت پاکستانی پولیس اہلکار گھر پہنچ گیا
گزشتہ ماہ یونان کی سمندری حدود میں ڈوبنے والی تارکین وطن کی کشتی میں سوارخوش قسمت پولیس اہلکار واپس گھر پہنچ گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق زندہ بچ جانے والے پاکستانی شہری نے سانحے سے قبل پیش آئے حالات سے متعلق بتایا کہ کشتی میں سوار سیکڑوں تارکین وطن کی جانب سے عملے کو 100 ڈالر ادا کیے جانے کے باوجود بھی انہیں لائف جیکٹس اور خوراک فراہم نہیں کی گئی۔
خاندانی ذرائع نے تصدیق کی کہ یونان کشتی سانحے میں زندہ بچ جانے والے 12 پاکستانیوں میں شامل عثمان صدیق جمعہ کے روز گجرات شہر کے نواحی گاؤں کالیکی میں واقع اپنے آبائی علاقے پہنچے، وطن واپسی کے بعد وہ ایسے کئی لوگوں سے ملاقات کرچکے ہیں جن کے پیارے اس سانحے میں زندگی کی بازی ہار گئے۔
28 سالہ عثمان صدیق گجرات پولیس میں کانسٹیبل تھے جنہوں نے ایک سال کی تعطیلات حاصل کر کے اپنے چار دوستوں کے ہمراہ اٹلی جانے کا فیصلہ کیا جن میں سے کچھ پولیس اہلکار بھی تھے، یہ لوگ مئی میں گجرات سے لیبیا کے لیے روانہ ہوئے۔
اپنی رہائش گاہ پر بات چیت کرتے ہوئے عثمان صدیق نے صحافیوں کو بتایا کہ عملے نے کشتی پر سوار ہونے سے قبل لائف جیکٹس کی فراہمی کے لیے مسافروں سے رقم جمع کی۔
عثمان صدیق کے مطابق بد قسمت کشتی میں کم از کم 700 افراد سوار تھے جن میں تقریباً 350 پاکستانی تھے، ان پاکستان شہریوں میں سے زیادہ تر کا تعلق گجرات، گوجرانوالہ، منڈی بہاؤالدین اور آزاد کشمیر کے علاقوں سے تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ راستہ بھٹکنے کے بعد کشتی سمندر میں پھنس کے رہ گئی۔
عثمان صدیق نے بتایا کہ کشتی کے ڈوبنے سے تقریباً 12 گھنٹے قبل ایک ہیلی کاپٹر نے تصویریں لیں اور واپس چلا گیا، انہوں نے مزید کہا کہ اسی روز ایک کارگو جہاز بھی کشتی کے قریب ایک گھنٹے سے زیادہ رکا رہا جس کے عملے نے مسافروں کو پانی کی بوتلیں اور روٹی دی۔
عثمان صدیق نے بتایا کہ رات 11 بجے کے قریب ایک اور جہاز اس مقام پر آیا اور ہماری کشتی کو رسی سے باندھ کر کھینچا لیکن جیسے ہی جہاز نے کشتی کو کھینچا کشتی ٹوٹنے لگی۔
انہوں نے بتایا کہ لوگ ڈوب رہے تھے اور ہر طرف چیخ و پکار، آہ و بکا سنائی دے رہی تھی ، کچھ لوگوں نے پانی میں گرنے کے بعد رسی کو تھام لیا جس سے وہ زندہ رہے، عثمان صدیق نے کہا صبح کے وقت ایک سیاحتی جہاز وہاں پہنچا ور 100 سے زیادہ لوگوں کو ساحل تک پہنچانے میں کامیاب ہوا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ کشتی کے ذریعے اٹلی بھیجے جانے کے منتظر 20 ہزار کے قریب پاکستانی اب بھی لیبیا میں انسانی اسمگلروں کے محفوظ ٹھکانوں میں موجود ہیں۔
ان کے مطابق ان کے تین دوست بھی ان سیف ہاؤسز میں موجود لوگوں میں شامل تھے جب کہ ایک اور پولیس کانسٹیبل بھی اس سانحے میں جان کی بازی ہار گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ انسانی اسمگلر نے پاکستان چھوڑنے کے 10 روز کے اندر ہمیں منزل تک پہنچانے کا وعدہ کیا تھا لیکن رقم وصول کرنے کے باوجود انہوں نے اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کی۔
عثمان صدیق اپنے خاندان اور والدین سے مشاورت کے بعد گھر واپس آ گئے ہیں، خاندانی ذرائع کے مطابق انہیں یونان میں رہنے کے لیے قانونی اجازت کی پیشکش کی گئی تھی لیکن انہوں نے فی الحال اس پیشکش کو ٹھکرا دیا، دیگر زندہ بچ جانے والے پاکستانی جو تاحال یونان میں موجود ہیں، انہوں نے اس طرح کی پیشکش کو قبول کرلیا۔
عثمان صدیق نے نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ وہ کبھی بھی اس طرح کے خوفناک سفر کا انتخاب نہ کریں، ہمیشہ اپنے دستیاب وسائل اور ذرائع کے اندر زندگی گزارنے کو ترجیح دیں، انہوں نے کہا کہ والدین کبھی اپنے بچوں کو بھوک سے مرنے نہیں دیں گے۔