نقطہ نظر

سفرنامہِ ہسپانیہ: اے حرمِ قرطبہ۔۔۔ (تیسری قسط)

مسلمانوں نے اندلس کی سرزمین پر جو کارنامے سرانجام دیے ہیں ان کی وجہ سے آج بھی یہاں کے مقامی باشندوں پر دولت کی بارش ہورہی ہیں۔

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


قرطبہ کا سفر میرے خوابوں کی تعبیر تھی اس لیے خواہش تھی کہ ٹرین میں کھڑکی والی سیٹ مل جائے تاکہ اس سفر کے لمحات کو کیمرے میں محفوظ کر سکوں۔ اس لیے میں ٹرین میں بیٹھتے ہی سائیڈ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ چند منٹ بعد ایک ہسپانوی خاتون میرے سامنے کھڑی میری سیٹ کو اشارہ کرتی ہوئی کہنے لگیں کہ ’سر دس از مائی سیٹ‘۔

بلاجھجک میں نے انہیں خوش آمدید کہا۔

مجھے لگا کہ شاید اب میں اس سفر کا مزہ نہ لے سکوں۔ پھر اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ شاید قدرت کو یہی منظور ہے اور مستنصر حسین تارڑ، اے حمید کے سفرناموں اور نسیم حجازی کے ناولوں کی طرح ایک خوبصورت دوشیزہ کے ساتھ مجھے سفر کرنے کا موقع مل گیا۔

میڈریڈ شہر کی خوبصورت تعمیرات سے نکل کر ہم شہر سے دور زرعی زمینوں کے نہ ختم ہونے والے میدانی سلسلے میں داخل ہوگئے۔ برق رفتار ٹرین منزلوں کو پلک جھپکتے ہی پیچھے چھوڑ رہی تھی۔

میں باہر کے مناظر سے لطف لے رہا تھا کہ اس دوران دیکھا کہ ساتھ بیٹھی لڑکی کے ہاتھ میں ایک نقشہ تھا۔ میں نے انگریزی میں پوچھا کہ ’کیا میں یہ نقشہ دیکھ سکتا ہوں؟‘

لڑکی نے بڑی خندہ پیشانی سے کہا، ’ضرور ضرور، مجھے تم سیاح لگتے ہو۔ کیا انڈیا سے ہو؟‘

میں نے نقشہ کھولتے ہوئے کہا ’نو میم میں پاکستان سےآیا ہوں اور سیاح ہوں۔ صرف 7 دن کا ٹور ہے اور اسپین کے 5 شہروں کا وزٹ کرنا ہے۔ ابھی ہم قرطبہ جارہے ہیں‘۔

’او آئی سی‘۔

میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا کہ ’کیا آپ بھی سیاح ہیں اور اسپین دیکھنے آئی ہیں؟‘

’نہیں نہیں۔ میں قرطبہ شہر کی رہنے والی ہوں، میرا نام ریچل ہے۔ میں میڈریڈ میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے استقبالیے میں کام کرتی ہوں۔ یہ نقشہ ویسے ہی میں اُٹھا لائی ہوں کہ شاید راستے میں کسی سیاح کے کام آجائے‘۔

میں نے نقشہ کھولتے ہوئے پوچھا کہ ’قرطبہ میں قرطبہ مسجد کے علاوہ کون سے مشہور سیاحتی مقامات ہیں جنہیں ہم ایک ہی دن میں وزٹ کرسکتے ہیں؟‘

ریچل نے نقشے میں قرطبہ شہر کا پیج کھولتے ہوئے مسجد قرطبہ کے اردگرد 5، 6 سیاحتی مقامات کی نشان دہی کرتے ہوئے پوچھا ’آپ لوگوں کی قرطبہ میں رہائش کہاں پر ہے‘؟ جس پر میں نے موبائل میں اپنے اپارٹمنٹ کا ایڈریس ان کے سامنے رکھ دیا۔

’اوہ آپ کی رہائش تو کارمن میں ہے اور یہ مسجد قرطبہ کے بہت قریب ہے۔ تقریباً چند منٹ کے فاصلے پر آپ قرطبہ مسجد اور اس کے اردگرد سارے مقامات کو پیدل وزٹ کرسکتے ہیں۔ اور ہاں یہ بات یاد رکھیے گا کہ قرطبہ شہر میں مسجد قرطبہ کو بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کیونکہ یہ کیتھڈرل ہے۔ آپ لوگ اگر کسی سے مسجد قرطبہ کا ایڈریس معلوم کرنا چاہیں گے تو قرطبہ کا بڑا گرجا گھر پوچھ لینا‘۔

ریچل کا جواب سن کر میرے دل کو ایک چوٹ سی لگی کہ اندلس کی عظیم الشان سلطنت کو کس قسم کا زوال آگیا جس کے زمین بوس ہوتے ہی مسلمانوں کو چن چن کر اس سرزمین سے نکال دیا گیا۔ یہاں تک کہ ان کی بنائی ہوئی مساجد بھی گرجا گھروں میں تبدیل ہوگئیں۔

چونکہ میڈریڈ سے بذریعہ تیز رفتار ٹرین قرطبہ شہر کا سفر 3 گھنٹے 15 منٹ پر محیط تھا اور ہم اب تک ایک گھنٹہ 45 منٹ کا سفر کرچکے تھے۔ دونوں اطراف کھیت اور کھیتوں میں کام کرنے والے دہقان تھے۔ پھر ان کھیتوں کا نہ ختم ہونے والے سلسلے کو چند منٹ چھوٹے بڑے شہر و دیہات کے دلکش مناظر نے روکا جوکہ یقیناً جدید ہسپانیہ (اسپین) کا دیہاتی منظر نامہ تھا۔

’کیا یہ زیتون کے درخت ہیں؟‘ میں نے ایک بار پھر دور سے نظر آنے والے درختوں کے نہ ختم والے سلسلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ریچل کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا۔ جس پر ریچل نے اثبات میں سر ہلایا۔

اسپین کی سب بڑی پیداوار زیتون کی ہے جو پوری دنیا کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ آپ کو قرطبہ (کوردوبہ) اور غرناطہ (گرینیڈا) کے درمیان زیتون کے سیکڑوں باغات ملیں گے۔

زیتون کو ہسپانوی زبان میں استیوناں (Aceituna) کہتے ہیں جبکہ عرب اسے زیتون کہتے ہیں۔ زیتون اور سنگترے (اورینج) کے پھل مسلمانوں کے دور کی نشانیاں ہیں۔

مورو (مسلمانوں) نے اپنے دورِ حکمرانی میں بڑی تعداد میں زیتون کی کاشتکاری کی تھی۔ جب مسلمانوں نے اُندلس فتح کیا تب وہ اپنے ساتھ عرب کی سرزمین سے بہت سی چیزیں بھی لائے۔ اُن میں زیتون بھی شامل تھا۔ چونکہ ایک زمانے میں اندلس شام کا ایک صوبہ تھا اور زیتون کے درخت کا آبائی وطن بھی شام ہی ہے۔ شام سے زیتون مصر، لیبیا، تیونس، الجزائر اور مراکش پہنچا اور پھر مراکش سے اسپین اور پرتگال آیا۔ دوسری طرف یہ درخت بحیرہ روم کے اُس پار یونان اور اٹلی تک پہنچا۔

ریچل نے بتایا کہ زیتون کے 5 کلو پھل سے ایک لیٹر تیل جبکہ زیتون کے ایک درخت سے سال میں اوسطاً 3 لیٹر تیل حاصل ہوتا ہے۔ اُندلس صوبے میں اس وقت 30 کروڑ سے زائد زیتون کے درخت ہیں۔ اسپین میں زیتون کے کل درختوں کا 80 فیصد جین اور قرطبہ کے علاقوں میں ہیں’۔

ریچل کا جواب سن کر میں سوچنے لگا کہ 800 سال پہلے کی مسلمانوں کی اس سلطنت کے ثمرات سے آج بھی یہ ہسپانوی قوم مستفید ہورہی ہے۔

تقریباً ایک گھنٹہ اور 15 منٹ کے بعد اعلان ہوا کہ ہم قرطبہ شہر کے اسٹیشن پر پہنچنے والے ہیں۔ میڈریڈ کی نسبت قرطبہ ایک چھوٹا مگر خوبصورت شہر ہے۔ معتدل آب و ہوا، صاف ستھری سڑکیں اور ہلکی ہلکی بارش ارد گرد کی دل کشی کو مزید دل فریب بنا رہی تھی۔

اسٹیشن سے ہم نے اپنی رہائش گاہ کے لیے ٹیکسی لی۔ ٹیکسی کی فرنٹ سیٹ سے میں قرطبہ شہر کی ویڈیوز بنانے اور فوٹوگرافی کرنے میں مصروف تھا جبکہ میرے ہم سفر یورپ کے فن تعمیر اور صفائی کی تعریفیں کررہے تھے۔ عبداللہ شاہ صاحب اسپین کی فن تعمیر کو استنبول سے تشبیہ دے رہے تھے جبکہ افتخار صاحب صفائی کے بہترین نظام کو قابل تحسین قرار دے رہے تھے۔ راستے سے ہی میں نے اپارٹمنٹ کے مالک کو میسج کے ذریعے اپنے آنے کی اطلاع کردی تھی۔

اسٹیشن سے تقریباً 10 کلومیٹر کے سفر کے بعد ہم اپنے اپارٹمنٹ پہنچے۔ ایک عدد وسیع کمرے اور لاؤنج پر مشتمل یہ اپارٹمنٹ تیسری منزل پر تھا۔ میں افتخار صاحب کو ساتھ لے کر ٹیرس سے قرطبہ شہر کا نظارہ کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ہم تازہ دم ہوکر مسجد قرطبہ کی طرف روانہ ہوئے۔

856 ستونوں اور محرابوں پر قائم اور مسلمانوں کے عروج اور درد ناک زوال کی تاریخ اپنے دامن میں سمیٹے اس وسیع وعریض مسجد کی تاریخ بھی منفرد ہے۔ 755ء میں جب بنو امیہ کے دور کا خاتمہ ہوا اور بنو عباس کی حکومت قائم ہوئی تو مصر میں بنو امیہ کے ایک سردار عبدالرحمٰن نے وہاں سے فرار ہوکر اس سرزمین پر آکر قرطبہ شہر کی بنیاد رکھی۔

اسے اوراق میں عبدالرحمٰن الداخل کے طور بھی پکارا جاتا ہے۔ الداخل کا مطلب عربی زبان میں داخل ہونے والا ہے۔ عبدالرحمٰن الداخل نے یہاں پر 33 سال حکومت کی۔ اپنی وفات سے 2 سال قبل یعنی 786ء میں اس جگہ کو اس وقت 80 ہزار درہم میں خریدا اور مسجد قرطبہ جیسے شاہکار کی تعمیر کا آغاز کیا۔ اس دوران عبد الرحمٰن الداخل کا انتقال ہوا تو ان کے بعد یہاں کے بادشاہ اور والی ہشام اول نے اس مسجد کی تعمیر کو جاری رکھا۔ اس وقت ہشام اول نے اپنی آمدنی کا 5 واں حصہ اس مسجد کی تعمیر کے لیے مختص کر رکھا تھا جس کی تعمیر اور اس کا جاہ و جلال آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔

علامہ اقبالؒ نے اس مسجد کی فن تعمیر اور جاہ و جلال کو خوب انداز میں اپنے اشعار میں سمویا ہے؛

تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل

وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل

تیری بنا پائیدار تیرے ستوں بے شمار

شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل

تیرے در و بام پر وادی ایمن کا نور

تیرا منار بلند جلوہ گہ جبرئیل

1236ء میں مسلمانوں کے زوال اور اندلس شہر سے ان کی رخصتی کے بعد عیسائی ریاست نے اس مسجد کو چرچ میں تبدیل کردیا تھا۔

ہم مختلف گلیوں سے ہوکر مسجد قرطبہ کے کمپاؤنڈ کے قریب پہنچے تو سامنے ایک بلند دیو قامت مینار (گھنٹہ گھر) نے ہمارا استقبال کیا۔ اس مینار کا دروازہ مسجد کے اندرونی صحن کے دروازے کے ساتھ ملتا ہے۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔ اب یہ مقام سیاحوں کی رہائش، خوراک اور دیگر لوازمات کے لیے قرطبہ شہر کا دل سمجھا جاتا ہے۔ مسجد کے اردگرد ہوٹلوں اور دکانوں میں موجود مقامی باشندوں کی بڑی تعداد یہاں پر سیاحوں کو سستے ترین سے لے کر مہنگے ترین کمرے، کھانے پینے کی چیزیں اور یادگاری شیلڈز وغیرہ بیچتے ہیں۔ مسجد کے داخلی دروازے پر بنائے گئے بلند مینار (گھنٹہ گھر) پر چڑھ کر سیاح دریا الکبیر اور پرانے قرطبہ شہر کا نظارہ کرتے ہیں۔

مسجد قرطبہ کے فن تعمیر کی خوب صورتی کا آپ اس واقعے سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 12ویں صدی کے آخر میں مسلمانوں کا قرطبہ اور دیگر چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر حکمرانی کا سورج غروب ہوا تو ملک کی تمام مساجد کو ڈھانے کے بعد مسجد قرطبہ کو بھی گرجا گھر میں تبدیل کرنے کی اجازت اس وقت کے عیسائی بادشاہ کارلوس پنجم سے لی گئی۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جب چند سال بعد کارلوس پنجم اس گرجا گھر کا دورہ کرنے پہنچا تو مسجد کے فن تعمیر کو دیکھ کر بے اختیار بول اُٹھا کہ ’افسوس کہ جس گرجا گھر کو تم نے مسجد کے اندر بنایا ہے اس کو تم باہر بھی بنا سکتے تھے۔ جس مسجد کو تم نے بگاڑ دیا ہے، وہ شاید ہی اس طرح دوبارہ تعمیر ہوسکے‘۔

مسجد کے 4 بڑے دروازے تھے لیکن سیاحوں کے لیے دو دروازے ہی کھولے گئے تھے جس سے ایک طرف داخل اور دوسری طرف مسجد کے مرکزی ہال سے باہر نکلا جاسکتا تھا۔ ہم دائیں طرف دروازے سے مسجد کے صحن میں داخل ہوگئے۔ مسجد کا پورا صحن سنگتروں کے درختوں سے بھرا تھا۔ یہ درخت بھی مسلمانوں کے سنہرے دور کی یاد تازہ کر رہے تھے۔ صحن سے مسجد قرطبہ کی تصاویر بہت خوبصورت آتی ہے۔ اس لیے صحن میں سیاحوں کی بڑی تعداد منظر کشی کرنے میں مصروف تھی۔ مسجد کے مرکزی دروازے میں دیواروں پر پرانے زمانے میں مسجد قرطبہ میں استعمال کی گئی خوبصورت کشیدہ کاری سے مزین لکڑی کو نمائش کے لیے لگایا گیا ہے جو کہ سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کررہی تھی۔

10 یورو کا ٹکٹ لے کر ہم مسجد کے ہال میں داخل ہوئے اور دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاحوں کے ساتھ مسجد کے مرکزی ہال میں آگے بڑھتے ہوئے اس جگہ تک پہنچ گئے۔ جہاں مسجد کے عین درمیان میں گرجا گھر کی قربان گاہ بنائی گئی تھی۔

اس قربان گاہ میں کچھ سیاح فوٹوگرافی کرنے میں مصروف تھے اور کچھ عیسائی سیاح یہاں پر موم بتیاں روشن کر رہے تھے۔ ہم وہاں سے آگے بڑھے اور مسجد قرطبہ کے محراب کے پاس پہنچے جہاں علامہ اقبال کو دو رکعت نفل پڑھنے کی اجازت مل گئی تھی لیکن اب اس محراب کو جنگلے لگا کر بند کردیا گیا ہے۔ اب آپ صرف دور سے ہی اس محراب کی تصاویر بنا سکتے ہیں۔

مسجد قرطبہ دیکھنے کے میرے خواب کی تعبیر آج پوری ہوچکی تھی لیکن جس ہال سے صدیوں برسوں پہلے اذانیں گونجا کرتی تھیں، آج اُس ہال کے کونے کونے میں میوزک اور گھنٹیوں کی آوازیں مجھے پریشان کر رہی تھیں۔ مسجد قرطبہ میں دو رکعت نفل ادا کرنے کی نیت کرکے ہم پاکستان سے محو سفر ہوئے تھے لیکن مسجد کے خوبصورت اور وسیع ہال کے کونے کونے صلیبوں سے مزین ہونے اور سیکیورٹی پر موجود اہلکاروں کے منع کرنے سے ہمیں یہ سعادت میسر نہ ہوسکی۔

دنیا بھر کے سیاح اس عظیم الشان مسجد کے فن تعمیر اور نقش گاروں کے اس حیرت انگیز آرٹ کو اپنے کیمروں میں محفوظ کرنے میں مصروف تھے لیکن میں اُس دور کے حرم شریف کے بعد دنیا کی سب سے بڑی اس قدیم مسجد اور جدید دور میں اس کے کونے کونے میں گرجا گھروں پر ایک عبرت ناک نظر ڈال کر اس کے وسیع ہال میں ایک ایسے مجنوں کی طرح گھوم رہا تھا جس کا محبوب اس کی اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے دور چلا گیا ہو۔

ہم نے ظہر اور عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی اس لیے عبداللہ شاہ صاحب کے حکم پر ہم مسجد کے بالائی حصے میں میوزیم پر ایک نظر دوڑاتے ہوئے باہر نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ تلاش کرنے کے لیے نکل پڑے۔

باہر نکل کر ایک دفعہ تو ارادہ دوبارہ اپارٹمنٹ جانے کا بنا تاکہ وہاں سکون سے نماز پڑھی جائے لیکن مسجد قرطبہ کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک مراکشی مسلمان دکان دار سے پتا چلا کہ سامنے ایک گلی کے اندر ایک چھوٹی سی مسجد اور حلال کھانوں کا ریسٹورنٹ موجود ہے۔

تقریباً 15 فٹ سے 20 مربع زمین پر مشتمل اس چھوٹی مسجد کو مسجد الاندلسیین کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد کسی عرب فلاحی تنظیم کی جانب سے بنائی گئی تھی۔ اس مسجد کا نقش و نگار اور 6 مینار بھی مسجد قرطبہ کی طرز پر بنائے گئے تھے۔

نماز کی ادائیگی اور دعا کے بعد گلی کے کونے پر موجود مراکشی حلال ریسٹورنٹ میں سبزی، بریانی نما پلاؤ اور عربی طرز پر بنے ہوئے گوشت سے پیٹ کی آگ بجھانے کے بعد ہم مسجد قرطبہ کے بلند دیواروں کے ساتھ گھومتے ہوئے 300 سال پہلے اسپین کے مشہور سنگ تراش ڈی موریو کے تعمیر کردہ شہزادہ کارلوس کے دیوہیکل مجسمے سے ہوتے ہوئے دریائے الکبیر پر بنائے گئے پل پر پہنچ گئے۔ یہاں پر سیاحوں کا رش دیدنی تھا۔

دریائے الکبیر کے پانی اور دونوں طرف گھنے درخت اور جھاڑیاں دریا کے منظر کو مزید دلکش بنا رہی تھیں۔ ایک لمحے کے لیے مجھے علامہ اقبال کے وہ اشعار یاد آنے لگے جو انہوں نے اس دریا کے کنارے امت مسلمہ کے اس دور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہے تھے۔

آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی

دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

دریائے الکبیر کے اس تاریخی پل پر کھڑے ہوکر ایک طرف جہاں قرطبہ کے جدید شہر کا نظارہ تھا تو دوسری طرف مسجد قرطبہ اور پرانے قرطبہ شہر کے دیگر مشہور مقامات کا نظارہ بھی آسانی سے کیا جاسکتا تھا۔ دریائے الکبیر (Guadalquivir river) کے اوپر یہ رومن پل جہاں پر ہم فوٹوگرافی میں مصروف تھے، ایک تاریخی پُل ہے جو پہلی صدی قبل مسیح کے اوائل میں تعمیر ہوا تھا حالانکہ اس کے بعد سے مختلف اوقات میں اس کی تعمیر نو کی گئی ہے۔ موجودہ ساخت کا بیشتر حصہ 8 ویں صدی میں مسلمانوں کے دور میں مکمل ہوا۔

اس پل کے آخری کونے پر مسلمانوں کے عظیم الشان دور کی ایجادات اور اُس دور میں استعمال ہونے والی چیزوں کو ایک میوزیم میں محفوظ کیا گیا ہے۔

’آپ وہ میوزیم ضرور وزٹ کریں‘، پل پر موجود ایک سیاح نے ہمارے لباس سے اندازہ لگاتے ہوئے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔ میں نے پوچھا ’کیا ہے اس میں؟‘

’دوست، چونکہ مسلمانوں نے یہاں پر صدیوں حکومت کی تھی، اس دور میں اسپین نے بہت زیادہ ترقی کی تھی۔ سونے، تانبے، سکے اور چاندی کی کانیں دریافت کیں۔ ابو قضیض (الزہراوی) ایک مسلمان سائنس دان تھے جنہوں نے سرجری کے آلات سے دنیا کو روشناس کروایا۔ ان کی بنائے ہوئے آلات اور دیگر قدیم چیزیں اس میوزیم میں موجود ہیں‘۔

تھوڑی دیر میں ہم میوزیم کے دروازے پر موجود تھے لیکن نامعلوم وجوہات پر میوزیم میں داخلہ بند تھا اس لیے یہاں سے ہم اپنی اگلی منزل القصر محل کی جانب روانہ ہوئے۔

مسجد قرطبہ کے بالکل سامنے الاقصر یا الکزر (کرسچن کنگز) محل کے داخلی دروازے سے 10 یورو ٹکٹ لےکر ہم بالائی منزل پر موجود اس محل کے چرچ میں پہنچ گئے۔ یہ محل اپنے فن تعمیر کے حوالے سے ایک شاہکار ہے اور اس کے بالائی منزل پر موجود اس چرچ سے لگ یہی رہا تھا کہ اس دور کے عیسائی حکمرانوں کو اپنے مذہب سے کس حد تک لگاؤ تھا۔ محل کے نچلے حصے میں فروٹ کے باغات، تالاب، چشمے اور پھول ہی پھول اس محل کی خوبصورتی کو دوبالا کر رہے تھی۔

محل کے ساتھ منسلک شاہی حمام اور اصطبل سے بھی پرانے دور کی یاد تازہ ہورہی تھی۔ اس محل کے گوشے گوشے کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرکے ہم اپنے فلیٹ کی طرف روانہ ہوئے۔

چونکہ تھکاوٹ سے برا حال تھا اس لیے عبد اللہ شاہ صاحب کی طرف سے کچھ دیر آرام کرنے اور پھر جدید قرطبہ شہر کے رنگینیوں کو سمیٹنے کے لیے مغرب کے فوراً بعد نکلنے کی تجویز پر من وعن عمل کرکے ہم تھوڑی ہی دیر میں خواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگے۔

الارم بجنے لگا تو اندازہ ہوا کہ ہم 2 گھنٹے سے زائد آرام کرچکے ہیں۔ نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد ہم جدید شہر قرطبہ دیکھنے کے لیے ٹیکسی میں سڑکوں پر مٹر گشت کرنے لگے۔

جدید قرطبہ شہر میں پلازہ دی لا کوریڈور ہماری پہلی منزل تھی۔ یہاں پر پہنچ کراندازہ ہوا کہ قرطبہ صرف تاریخی شہر نہیں بلکہ اسپین کے دیگر شہروں کی طرح یہاں جدید طرز تعمیر کی آپ کو بھرپور جھلک ملے گی۔ اس پلازہ (مارکیٹ) کا فن تعمیر بھی اپنی مثال آپ تھا جہاں نہ صرف شاپنگ کی جاسکتی ہے بلکہ یہاں پر موجود حلال ریسٹورنٹس سے کھانا بھی کھا سکتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے پہنچنے سے پہلے ریسٹورنٹ بند ہوچکا تھا۔ اس لیے شام کے کھانے اور شاپنگ کے لیے ہم نے جدید قرطبہ کا قلب سمجھے جانے والے مشہور سیاحتی مرکز ’پلازہ دی لاس تند لاس‘ کا انتخاب کیا۔ اس مقام سے گوگل میپ صرف 15 منٹ کی واک پر اس سیاحتی مرکز کی نشان دہی کر رہا تھا۔ اس لیے ٹائم ضائع کیے بغیر مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے اپنے مطلوبہ مقام پر پہنچے۔ رات کے اس پہر یہاں پر سیاحوں کا جم غفیر تھا۔

اردگرد شاپنگ مالز، شاپنگ اسٹریٹس، ہوٹل، ریسٹورنٹ اور کلبز پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ یہاں حلال ریسٹورنٹ نہ ہونے کی وجہ سے کچھ دیر کے بازار گشت، شاپنگ اور بھوک مٹانے کے لیے ایک اسٹال سے ایک کلو کجھور اور فروٹ خرید کر ہم ایک بار پھر گوگل میپ کی رہنمائی میں اپنی اگلی منزل رومن دور کا تاریخی ٹیمپل دیکھنے چل پڑے۔

یہ قرطبہ شہر کے وسط میں رومن ٹیمپل کی باقیات تھیں، جنہیں 1950ء میں سٹی ہال کی توسیع کے دوران دریافت کیا گیا تھا۔

یہ 32 میٹر لمبا اونچا اور 16 میٹر چوڑائی والا مندر ہے۔ اس کی تعمیر شہنشاہ ڈومیتیان کے دور میں شروع ہوئی تھی اور تقریباً 40 سال بعد شہنشاہ کلاڈیوس کے دور میں مکمل کی گئی تھی۔ چونکہ رات کا کافی حصہ گزرچکا تھا اس لیے قرطبہ شہر کی روشنیاں بھی مدھم ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ لہٰذا ہم تاریخی مندر کی فوٹوگرافی کرنے کے بعد اپنے اپارٹمنٹ واپس آگئے۔


تصاویر بشکریہ لکھاری

عظمت اکبر

عظمت اکبر سماجی کارکن ہیں۔ آپ کوسیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔