بچے پیدا نہ ہونے پر جنوبی کوریا کے ماہرین امراض اطفال پیشہ چھوڑنے لگے
شرح پیدائش کی شدید کمی کا سامنا کرنے والے ترقی پذیر ملک جنوبی کوریا میں بچوں کی پیدائش نہ ہونے پر ماہرین امراض اطفال کی جانب سے اپنا پیشہ چھوڑنے کا رجحان تیز ہوگیا۔
جنوبی کوریا کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے، جہاں پہلے ہی شرح پیدائش انتہائی کم ہوتی ہے۔
جنوبی کوریا کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک جاپان، سنگاپور اور چین میں بھی شرح پیدائش کم ہے لیکن وہاں اس میں بہتری دیکھی جارہی ہے۔
جنوبی کوریا میں چند سال قبل تک وہاں ایک خاتون ایک بچے کی شرح تھی لیکن اب وہاں ہر خاتون ایک بچہ بھی پیدا نہیں کر پا رہی۔
وہاں بچوں کے پیدا نہ ہونے کی وجہ سے جہاں زائد العمر افراد کا اضافہ دیکھا جا رہا ہے، وہیں اب جنوبی کوریا کے بچوں کے ڈاکٹرز کی جانب سے اپنا پیشہ چھوڑنے کے رجحان میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اس وقت جنوبی کوریا میں کسی بھی بیمار بچے کو ہفتوں تک ڈاکٹر کا انتظار کرنا پڑتا ہے جب کہ بعض اوقات بیمار بچوں کا انتظار توقع سے زیادہ ہوجاتا ہے، کیوں کہ وہاں ڈاکٹرز کم ہونے لگے ہیں۔
جنوبی کوریا کی پیڈیارک ایسوسی ایشن کے مطابق دارالحکومت سیول کے 90 فیصد ماہرین امراض اطفال اپنا پیشہ چھوڑ یا تبدیل کر چکے ہیں۔
تنظیم کے مطابق بچوں کی کم پیدائش کی وجہ سے ماہرین امراض اطفال کو اسی شعبے میں کوئی مستقبل نظر نہیں آ رہا جب کہ حکومت کی جانب سے بھی انہیں کوئی خصوصی مراعات نہیں دی جا رہیں، جس وجہ سے وہ اپنا پیشہ چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے بتایا کہ زیادہ تر چائلڈ اسپیشلسٹس ڈاکٹرز نے اپنے کلینکس بند کردیے جب کہ دیگر نے شعبہ تبدیل کردیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خود تنظیم نے گزشتہ ماہ چائلڈ اسپیشلسٹ کے لیے ایک منفرد سیمینار منعقد کیا، جس میں ماہرین امراض اطفال کو تجاویز دی گئیں کہ وہ اپنا شعبہ چھوڑ کر کون سے شعبے میں جا سکتے ہیں۔
مذکورہ سیمینار میں ماہرین امراض اطفال کو تجاویز دی گئیں کہ وہ کاسمیٹک اور پلاسٹک سرجری جیسے شعبوں میں جائیں یا پھر بالغان کی صحت کی دیکھ بھال کے شعبے کو اپنائیں۔
تنظیم کے مطابق گزشتہ چند سال میں جنوبی کوریا میں بچوں کے ڈاکٹرز تیزی سے اپنا پیشہ تبدیل کر رہے ہیں جب کہ حکومت بچوں کے ڈاکٹرز کو خدمات برقرار رکھنے کے لیے آمادہ نہیں کر پا رہی، نہ ہی انہیں کوئی اچھی مراعات دی جا رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق بچوں کے ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے بھی بعض جوڑے بچے پیدا کرنے سے خوف زدہ ہیں، کیوں کہ انہیں ڈر لگا رہتا ہے کہ اگر ان کے بچے ہوگئے اور وہ بیمار ہوگئے تو ان کا علاج کون کرے گا۔
دوسری جانب حکومت نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ان کی جانب سے ماہرین امراض اطفال کو کوئی اضافی مراعات نہیں دی جا رہیں، تاہم حکومت نے عندیہ دیا کہ وہ جلد اس حوالے سے اہم پالیسی بنائے گی۔
حکومت ممکنہ طور پر ہسپتالوں میں بچوں کے امراض کے وارڈز اور ڈاکٹرز کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے سخت پالیسیاں بنائے گی اور ہسپتال انتظامیہ کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ ماہرین امراض اطفال مقرر کریں، ورنہ انہیں ایمرجنسی وارڈز بھی نہیں چلانے دیے جائیں گے۔
ملک میں ماہرین امراض اطفال کی کمی کی وجہ سے خراب صورتحال پر ماہرین اور عام افراد نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر صورتحال پر ابھی سے قابو نہ پایا گیا تو مستقبل میں مزید مشکلات پیدا ہوں گی اور بچے کسی بڑی بیماری کے بغیر بروقت طبی امداد نہ ملنے پر مرنے لگیں گے۔