پاکستان

یونان کشتی حادثہ: 86 میں سے 54 انسانی اسمگلرز کو گرفتار کر لیا، ایف آئی اے

یونان کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والا ایک شہری پاکستان آ گیا ہے، زندہ بچ جانے والے دیگر افراد تحقیقات کا حصہ بنیں گے، حکام وزارت خارجہ

وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کے حکام نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بتایا ہے کہ یونان میں کشتی حادثے میں ملوث 86 میں سے 54 انسانی اسمگلرز کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس مہرین رزاق کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں وزارت خارجہ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام نے بریفنگ دی۔

ڈائریکٹر جنرل وزارت انسانی حقوق محمد ارشد نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کشتی حادثے کا شکار ہونے والوں کے خاندان کی جانب سے شکایات موصول ہوئیں، انسانی اسمگلنگ کے خلاف کل سپریم کورٹ میں بھی بات ہوئی۔

چیئرپرسن کمیٹی نے وزارت انسانی حقوق کی جانب سے یونان کشتی حادثے پر فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ نہ منگوانے پر حیرت کا اظہار کیا۔

ڈائریکٹر جنرل وزارت انسانی حقوق نے بتایا کہ ملک سے باہر پیش آنے والے واقعات وزارت خارجہ کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔

حکام وزارت خارجہ نے کمیٹی کو بتایا کہ یونان کشتی حادثے میں 15 پاکستانی متاثرین کی شناخت اور زندہ بچ جانے والے 12 شہریوں کی تصدیق ہوئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مختلف اداروں کے مابین کوآرڈینیٹشن سیل قائم کیا گیا ہے۔

حکام وزارت خارجہ نے بتایا کہ یونان کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والا ایک شہری پاکستان آ گیا ہے، باقی زندہ بچ جانے والے تحقیقات کا حصہ بنیں گے۔

قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے رکن زیب جعفر نے استفسار کیا کہ زندہ بچ جانے والے پاکستانیوں سے تحقیقات کون کر رہا ہے؟ جس پر حکام وزارت خارجہ نے بتایا کہ زندہ بچ جانے والے 12 پاکستانی حراستی مراکز میں ہیں، یونانی حکام ان سے اپنے قوانین کے مطابق تحقیقات کر رہے ہیں۔

عالیہ کامران نے کہا کہ ریاست نے بیرون ملک جانے کا عمل بہت مشکل کر دیا ہے۔

ایف آئی اے کے ڈائریکٹر برائے انسدادِ انسانی اسمگلنگ سیل کے نمائندے نے کمیٹی کو بریفننگ دیتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی طور پر ہجرت کشمیر اور پنجاب کے متعدد علاقوں سے ہوتی ہے۔

کمیٹی کے رکن قادر مندوخیل نے مدینہ منورہ سے اجلاس میں آن لائن شرکت کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے اور دیگر ادارے ایجنٹ بنے ہوئے ہیں، یہاں سعودی عرب میں 13 ہزار غیر قانونی پاسپورٹ پکڑے گئے۔

قادر مندوخیل نے انسانی اسمگلنگ میں مبینہ طور پر ملوث ایف آئی اے افسران کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے کی استدعا کر دی۔

ایف آئی اے حکام نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ یونان کشتی حادثے میں ملوث 86 میں سے 54 انسانی اسمگلرز کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس پر پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی قادر مندوخیل نے کہا کہ آج اعداد و شمار بتا رہے ہیں، پہلے آپ کہاں تھے؟

ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ائیرپورٹ پر نگرانی ہوتی ہے لیکن تھوڑی بہت قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے، جس پر چئیرپرسن کمیٹی نے استفسار کیا کہ تھوڑی بہت خلاف ورزی کیا ہوتی ہے؟ آپ اندازوں کی بنیاد پر کام کرتے ہیں؟ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچنے کے لیے آپ کیا ٹھوس اقدامات کریں گے؟

وفاقی تحقیقاتی ادارے کی کارکردگی پر کمیٹی ممبران نے عدم اعتماد کا اظہار کر دیا، چیئرپرسن کمیٹی مہرین رزاق نے کہا کہ وزارت خارجہ سے التماس ہے کہ زندہ بچ جانے والے نوجوانوں کو پاکستان لانے کے لیے جلدی اقدامات کریں۔

زیب جعفر نے کہا کہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے متعلقہ وزارتوں کو لکھنے کی ضرورت ہے۔

کمیٹی نے معاملے پر بروقت جواب نہ دینے والے محکمہ جات کو خط لکھنے کا فیصلہ کر لیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ایف آئی اے نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں کریک ڈاؤن کرتے ہوئے یونان کشتی حادثے میں ملوث 5 انسانی اسمگلرز کو گرفتار کر لیا تھا۔

گرفتار ملزم متاثرین کو پاکستان سے لیبیا اور پھر لیبیا سے یونان بذریعہ کشتی بھجوانے میں ملوث تھا اور اس کے خلاف کارروائی ایف آئی اے لنک آف یونان کی نشان دہی پر کی گئی۔

بدترین سمندری حادثہ

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ یونان کے قریب بحیرہ روم میں تقریباً 400 پاکستانیوں سمیت 800 تارکین وطن کو لے کر جانے والی کشتی ڈوب گئی تھی جن میں سے محض 104 افراد کو زندہ ریسکیو کیا جاسکا تھا جبکہ سیکڑوں افراد لاپتا ہو گئے تھے جن میں سے اکثر کے زندہ بچنے کے امکانات تقریباً صفر ہیں۔

وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جاں بحق ہونے والے 82 پاکستانی متاثرین کی لاشوں کو نکال لیا گیا جب کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے قوانین میں ترامیم زیر غور ہیں کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد اور لوگوں کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے غیر قانونی طریقے استعمال کرنے والوں کو مناسب سزا کا سامنا کرنا پڑے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ مختلف ممالک کے کئی سو افراد اس کشتی پر سوار تھے اور اس حادثے کو خطے میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران پیش آنے والا بدترین سمندری سانحہ قرار دیا جا رہا ہے۔

پاکستانی حکومت نے مرنے والوں کی شناخت میں یونان کی مدد کے لیے ڈی این اے سیمپلز لیے تھے۔

ایف آئی اے کی جانب سے شیئر کیے گئے اعداد و شمار میں بتایا گیا تھا کہ 181 افراد کا تعلق پاکستان کے چاروں صوبوں اور 28 کا آزاد و خود مختار جموں و کشمیر سے ہے، حکام نے 201 خاندانوں سے ڈی این اے نمونے حاصل کیے تھے۔

عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ 400 سے 750 کے درمیان لوگ 20 سے 30 میٹر لمبی (65 سے 100 فٹ) ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتی پر سوار تھے، کشتی 14 جون کی صبح جنوبی ساحلی ٹاؤن پائلوس سے تقریباً 50 میل (80 کلومیٹر) دور الٹنے کے بعد ڈوب گئی تھی۔

گلگت بلتستان: پی ٹی آئی مزید تقسیم، نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا شیڈول جاری

کسی بھی مقبول گانے کے’ریمیک’ کے حق میں نہیں، شیما کرمانی کا پسوڑی پر ردعمل

ورلڈ کپ میں صرف بھارت نہیں، تمام ٹیموں کےخلاف میچوں پر توجہ ہے، بابر اعظم