پاکستان

یونان کشتی سانحے کو روکا جاسکتا تھا، واشنگٹن پوسٹ

38 صفحات کی رپورٹ میں یونانی حکام کے اس دعوے پر بھی شکوک کا اظہار کیا گیا کہ ان کے کوسٹ گارڈز مسافروں کو بچانے میں ناکام رہے۔

واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق بحیرہ روم میں برسوں میں سب سے مہلک کشتی کے سانحے کو رونما ہونے سے بچایا جاسکتا تھا، جس میں سیکڑوں پاکستانی تارکین وطن جاں بحق ہوئے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کشتی کے نوشتہ جات، حادثے میں بچ جانے والے افراد اور حکومتی حکام کے انٹرویوز پر مبنی 38 صفحات کی رپورٹ میں یونانی حکام کے اس دعوے پر بھی شکوک کا اظہار کیا گیا کہ ان کے کوسٹ گارڈز مسافروں کو بچانے میں ناکام رہے کیونکہ انہوں نے مدد لینے سے انکار کر دیا تھا۔

واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ کشتی ایڈریانا بحیرہ روم کے گہرے مقام کے قریب ڈوبی، جس میں 600 افراد سوار تھے، کشتی نے اپنے آخری 15 گھنٹوں میں اوسطاً 2.2 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کم از کم 34 میل کا فاصلہ طے کیا۔

آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے موٹرسائیکل کے مکینک حسیب الرحمٰن نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ آخری روز کشتی کا انجن متعدد بار فیل ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ کشتی کے انجن نے 11 جون کو تقریباً 5 گھنٹے کے لیے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور اس کے بعد 12 جون کی رات کو بھی انجن فیل ہوا تھا، کشتی حادثے میں بچ جانے والے حسیب الرحمٰن نے بتایا کہ اس رات کی آوازیں اور یادیں جب تک میں زندہ رہوں گا مجھے ستائیں گی۔

ایک اور پاکستانی مسافر مہتاب علی نے ٹک ٹاک پر لکھا کہ دو نجی جہازوں نے بچانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے، ان کا کہنا تھا کہ دوسرے جہاز (فیتھ فل ورائیر) نے لہریں پیدا کیں جو (ہماری) کشتی برداشت نہیں کر سکی۔

ماہرین نے پوچھنے پر واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ جو لوگ کشتی کو بچا سکتے تھے، خاص طور پر یونانی کوسٹ گارڈز جانتے تھے کہ کشتی ڈوب سکتی ہے، اس پر سوار ہونا کسی انتخاب کی طرح محسوس نہیں ہوا، یہ یونانی دعوے کی تردید کرتا ہے کہ انہوں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ کشتی ڈوب سکتی ہے۔

کوسٹ گارڈ کے برعکس کہ کشتی مستحکم تھی اور اٹلی جانے کے لیے پرعزم تھی، ماہرین نے نوٹ کیا کہ اپنے راستے پر واپس چکر لگاتے ہوئے کشتی کی رفتار میں ڈرامائی طور پر اتار چڑھاؤ آیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر تارکین وطن کی اسمگلنگ کے شبہے کی معقول بنیادیں ہوں تو یورپی قانون حکام کو کشتی جیسے ایڈریانا کی تلاشی کی اجازت دیتا ہے۔

انٹرنیشنل میری ٹائم قانون کے ماہرین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ مصیبت میں لوگوں کو بچانے کی قانونی ذمہ داری ان کے ارادے یا امیگریشن کی حیثیت سے کوئی فرق نہیں رکھتی۔

یونانی کوسٹ گارڈز نے پہلے مداخلت نہ کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے زور دیا کہ ایڈریانا نے مدد کو مسترد کر دیا تھا، باضابطہ بیان میں یہ بات 5 بار دہرائی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے ممکنہ طور پر مسافروں نے خوف کی وجہ سے مدد کی پیشکش کو مسترد کیا ہوگا۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ یونانی حکام تارکین وطن کی کشتیوں کو جارحانہ طریقے سے تلاش اور بچاؤ کے علاقے سے باہر دھکیلنے کے لیے شہرت رکھتے ہیں جس کے وہ ذمہ دار ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق مسافروں نے ایک ایکٹوسٹ نوال صوفی سے ’فوری مدد‘ کے لیے رابطہ کیا، جنہوں نے اطالوی، یونانی اور مالٹی حکام کو آگاہ کیا۔

اس رپورٹ میں ماہر طبیعیات اور سمندری امور ماہرین کو ایڈریانا کی رفتار اور سمت کے تخمینے بھی فراہم کیے اور جہاز (فیتھ فل وارئیر) سے موسم کے حوالے سے اعداد و شمار بھی حاصل کیے، اس میں ڈوبنے کے بعد مصروفیات میں ملوث دوسری کشتی مایان قوئین IV سے حاصل کردہ ڈیٹا بھی شیئر کیا۔

ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا کہ اپنے سفر میں کم از کم دو پوائنٹس کے دوران کشتی کا جنوب مشرق کی طرف سمت بدلا، اس میں انجن کے مسائل تھے جیسا کہ کشتی مقامی دھاروں اور ہواؤں کی سمت میں بہتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

یونانی کوسٹ گارڈز نے جاری تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے واشنگٹن پوسٹ کے تفصیلی سوالات پر ردعمل دینے کو مسترد کردیا۔

پاکستان ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں آئی ایم ایف معاہدے کی منظوری کیلئے پُرامید

اکثر لوگ سوشل میڈیا کے خطرناک ٹرینڈز کو کیوں فالو کرتے ہیں؟

اسٹیٹ بینک کا 3 ارب ڈالر کے قرضوں سے مستفید ہونے والوں کے نام بتانے سے انکار