لاہور ہائیکورٹ کی اینکر عمران ریاض کی بازیابی کیلئے پولیس کو 20 روز کی مہلت
لاہور ہائی کورٹ نے اینکر عمران ریاض کی بازیابی کے لیے اُن کے والد کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کے دوران انتظامی سطح پر موجود رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے پولیس کو 20 روز کی مہلت دیتے ہوئے سماعت 25 جولائی تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی نے صحافی کے والد ریاض احمد کی درخواست پر سماعت کی، آئی جی پنجاب حاضر نہ ہوسکے جبکہ ایڈیشنل آئی جی پنجاب سمیت دیگر افسر عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ عمران ریاض کی بازیابی کے لیے ورکنگ کمیٹی کے ساتھ اچھی میٹنگز ہوئی ہیں اور امید ہے جلد اچھے نتائج ملیں گے۔
وکیل میاں علی اشفاق نے بتایا کہ ورکنگ کمیٹی کی میٹنگز میں شواہد سمیت دیگر چیزیں فراہم کی ہیں لیکن انتظامی سطح پر کچھ رکاوٹیں ہیں جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ نے بھی اسی نوعیت کے معاملات میں احکامات جاری کیے ہیں۔
سرکاری وکیل نے بتایا کہ اطلاع کے مطابق تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے، وزارت دفاع اور دیگر حکام کی جانب سے رپورٹس عدالت میں پیش کی گئیں۔
نمائندہ وزارت دفاع نے کہا کہ ہم عمران ریاض خان کی بازیابی کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں، اگر درخواست گزار کو کچھ انتظامی رکاوٹوں کا مسئلہ ہے تو اس کو دیکھ لیتے ہیں، لوکیشنز سمیت دیگر پہلوؤں پر کام کر رہے ہیں، کوشش کر رہے ہیں کہ عمران ریاض خان جلد بازیاب ہوجائیں۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت عالیہ نے انتظامی سطح پر رکاوٹیں ختم کرنے کے لیے پولیس کو 20 دنوں کی مہلت دیتے ہوئے سماعت 25 جولائی تک ملتوی کردی۔
عمران ریاض خان گرفتاری کیس
26 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے اینکرپرسن عمران ریاض کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر جاری تحریری حکم میں کہا تھا کہ تمام ایجنسیاں مل کر ان کو بازیاب کرکے 30 مئی کو عدالت میں پیش کریں۔
عدالت نے کہا تھا کہ وزارت دفاع کی جانب سے عدالت میں کوئی پیش نہیں ہوا اور نہ ہی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی گئی جبکہ پولیس نے مغوی کی بازیابی کے لیے 3 سے 4 دن کا مزید وقت مانگا ہے۔
اس سے قبل 19 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے اینکر پرسن عمران ریاض کی بازیابی سے متعلق کیس میں پولیس کو (20 مئی) تک پیش رفت سامنے لانے کی ہدایت کی تھی۔
چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے عمران ریاض کے والد محمد ریاض کی درخواست پر سماعت کی تھی اور اس دوران ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عدالت کے روبرو پیش ہوئے تھے۔
چیف جسٹس نے عمران ریاض کی بازیابی کے لیے پولیس کے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس نے تو ابھی تک کچھ نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے ڈی پی او کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے ایک سب انسپکٹر تعینات کردیا باقی آپ نے کہا جاؤ موج کرو۔
اس سے قبل 17 مئی کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سیالکوٹ کے ڈی پی او کو اینکر عمران ریاض خان کو 48 گھنٹوں میں پیش کرنے کے حکم کے ایک روز بعد سٹی پولیس نے نامعلوم افراد اور پولیس اہلکاروں کے خلاف ان کے اغوا کا مقدمہ درج کرلیا تھا۔
اینکر عمران ریاض خان کے والد محمد ریاض کی مدعیت میں لاہور کے تھانہ سول لائنز میں تعزیرات پاکستان کی سیکشن 365 کے تحت فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرلی گئی تھی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ اینکرپرسن کو پولیس اہلکاروں نے گزشتہ ہفتے سیالکوٹ ایئر پورٹ سے گرفتار کیا اور اس کے بعد سیالکوٹ جیل منتقل کر دیا گیا۔
درخواست گزار نے کہا تھا کہ گرفتاری کے وقت میرے بیٹے کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں تھا اور انہیں غیرقانونی طور پر حراست میں لیا گیا اور اس دوران اہل خانہ سے بھی ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
واضح رہے کہ پولیس نے عمران ریاض کو 11 مئی کو سیالکوٹ ایئرپورٹ سے گرفتار کرکے جیل منتقل کرنے کا اعتراف کیا تھا، پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت کی طرف سے نظربندی کا حکم واپس لیے جانے اور جیل سے رہائی کے بعد سے اینکر پرسن کا ٹھکانہ معلوم نہیں ہو سکا۔